اسلام آباد (جیوڈیسک) گزشتہ حکومتوں کی طرف سے لیے جانے والے قرضوں کی انکوائری کے لیے، جس کمیشن کا اعلان وزیرِ اعظم عمران خان نے کل بروز منگل کیا تھا، حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ کل عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرائیں گے کہ دس برسوں میں ملکی قرضے اتنے کیوں بڑھے؟ دورانِ خطاب انہوں نے حزبِ اختلاف خصوصاﹰ ن لیگ اور پی پی پی پر بھی تنقید کے نشتر چلائے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے قرضے اکتیس ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ستمبر تک پاکستان کے بیرونی قرضے اور ادائیگیاں چھیانوے اعشاریہ سات بلین ڈالرز تک پہنچ گئیں تھیں۔ ماہرین کے خیال میں اب یہ سو بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہیں۔ ن لیگ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دورِ اقتدار میں قرضوں میں بہت اضافہ کیا، جب کہ پی پی پی پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بیرونی قرضے لے کر کرپشن کی۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اب وہ ان قرضوں کی جانچ پڑتال کمیشن کے ذریعے کرے گی۔ تاہم ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اس کمیشن کو مسترد کر دیا ہے۔ نون لیگ کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیات مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کمیشن کا اعلان عمران خان کی دیوانگی کا عکاس ہے، ’’ہم اس کمیشن کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ چار ماتحت شعبوں کا کمیشن بنا کر آپ خود اس کے چیئرمین بن جائیں اور پھر تڑیاں لگائیں کہ میں یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا۔ پہلے ایک کمیشن ایسا بنائیں، جس میں علیمہ باجی کی جائیدادوں کا حساب کتاب ہو سکے۔ فیصل واوڈا کی جائیدادوں کا حساب ہو سکے۔ وزیرِ اعظم کے کمیشن کو کوئی نہیں مانتا اور نہ ہم اس کے سامنے پیش ہوں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،’’تاہم اگر حکومت کو ئی عدالتی یا غیر جانبدارانہ کمیشن بناتی ہے، تو ہم اس میں پیش ہونے کا سوچ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ضیمر اور ریکارڈ دونوں صاف ہیں۔ ہمارے پاس پورا حساب ہے کہ ہم نے کہاں کہاں پیسہ خرچ کیا۔‘‘
کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ایسے قرضوں کی جانچ کے لیے آئینی ادارے موجود ہیں اور اس کے لیے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں۔ پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی اس کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اس کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آئین میں موجود ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ایسے امور کے لیے رپورٹ بنائیں اور حکومت کو بھیجے۔ رپورٹ مختلف اداروں میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرتی ہے، جو زیادہ تر ٹیکنیکل ہوتی ہیں اور پھر اس رپورٹ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی بھیجا جاتا ہے اور مختلف اداروں کو بھی۔ تو خان صاحب آڈیٹر جنرل سے ساری رپورٹیں طلب کر لیں۔ کمیشن بنا کر عوام کا پیسہ کیوں ضائع کر رہے ہیں۔‘‘
ان کا دعویٰ تھا کہ پی پی پی نے جن پروجیکٹس کے لئے پیسے لئے، ان کا سارا ریکارڈ موجود ہے، ’’ہم نے آئی ایم ایف سے ایک سال کے لئے قرض لیا تھا، جس میں شرائط نہیں تھیں۔ آئی ایم ایف نے سات اعشاریہ دو بلین ڈالرز کے قرضے کی منظوری دی تھی لیکن ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق چار اعشاریہ نو بلین ڈالرز لیا تھا۔ ہم نے ایکسپورٹ کو پچیس بلین ڈالرز تک پہنچا دیا تھا۔ تو ہمیں پی ٹی آئی کی طرح اتنے قرضے کی ضرورت نہیں پڑی تھی لیکن جو بھی ہم نے لیا۔ اس کو ہم نے پروجیکٹس پر لگایا۔ ‘‘
جس انداز میں عمران خان نے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے اس پر بھی کئی ناقدین تنقید کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور ماہرِ قانون جسٹس وجیہ الدین کے خیال میں عمران خان کو کمیشن کا اعلان اس انداز میں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کسی عوامی اہمیت کے مسئلے کی جانچ کے لئے بنائیں جا سکتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں کمیشن کسی مسئلے کو ٹالنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ان کی رپورٹس کو بھی منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا۔ یہ مناسب نہیں کہ آپ کمیشن بنائیں اور خود ہی اس کے نگران بن جائیں۔ اس سے کمیشن کی غیر جانبدارانہ حیثیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ تمام طرح کی تنقید کے باوجود بھی حکومت پر عزم ہے کہ وہ اس کمیشن کو بنائے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اسحاق خاکوانی کے خیال میں یہ اہک اہم مسئلہ ہے اور اس پر کمیشن ہر صورت میں بنے گا۔
اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صرف ن لیگ کے دور میں نواز شریف، اسحاق ڈار، سیکریٹری خزانہ اور ایک اور بیورو کریٹ کی ملی بھگت سے چونتیس بلین ڈالرز کا قرض لیا گیا، جس کے لئے کئی ادارے گروی رکھے گئے۔ تو حزبِ اختلاف کو ان باتوں کا جواب دینا پڑے گا۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن میں ایسے افراد کو رکھا جائے گا، جو قرضوں کے مسئلے پر مہارت رکھتے ہوں،’’اس کے علاوہ ٹرمز آف ریفرنس میں بھی حزبِ اختلاف کو دعوت دی جائے گی۔ چیئرمین اچھی ساکھ کے بندے کو رکھیں گے۔ ان ساری چیزوں کے باوجود بھی اگر ن لیگ اور پی پی پی نے اس کا بائیکاٹ کیا تو پھر قانون اپنا راستہ لے گا۔‘‘