قرضے کو امداد کا رنگ دینے کے لیے بلا سود کاروبار کی بنیاد ڈالیں

حیدر آباد: نوجوانوں کے ساتھ قرض کے کاروبار میں یہ تو کرتے کہ اس پر سود معاف کر دیتے بلا سود قرض دینے کی ہمت تجارت میں نہیں ہوتی مریم نواز یہ کر گزریں کہ اس قرضے کو امداد کا رنگ دینے کے لیے بلا سود کاروبار کی بنیاد ڈالیں انکی تقریر اچھی تھی اسکے بعد نواز شریف کی تقریر بھی اچھی رہی بقول نوازشریف کے کہ دس کروڑ سے زیادہ نوجوانوں کی تعداد ہے پانچ ساتھ کروڑ تو اپلائی کریں گے، فارم فری ملیں گے مگرانہیں جمع کرانے کی فیس 100 روپے ہے جو ناقابل واپسی ہے آپ اندازہ کرلیں کہ اربوں روپے کی یہ رقم قرضوں کی کل رقم سے بہت زیادہ ہو جائے گی۔

یہ رقم مریم نواز کی نگرانی میں وصول ہوگی اور انکے پاس رہے گی یہ بھی نوجوانوں کے لیے قرضے میں استعمال کی جائے سود کی رقم کا استعمال سوچ سمجھ کرکیا جائے یہ بھی سوچا جائے کہ کتنے نوجوان یہ رقم واپس کریں گے، اس سے کہیں زیادہ کے قرضے حکمران اور سیاستدان بینکوں سے معاف کراچکے ہیں ان سے یہ رقم وصول کرکے اعوام کی رقم اعوام پر ہی خرچ کی جائے۔

پرائم منسٹر بھٹو نے بھی بے نظیر بھٹو کوبھی عہدہ دیا تھا اوروہ دو دفعہ ملک کی پرائم منسٹر بنی اب میاں صاحب نے بھی مریم نواز کو زمہ داری سونپ دی صدر زرداری نے بھی آصفہ زرداری بھٹو کو بھی اپنے ساتھ رکھا ہے سنا ہے وہ بالکل اپنی ماں جیسی ہے یہ سیاست بھی مفاہمانہ ہے۔

نوجوانوں کو قرضے دینے کا معاملہ وہی تو نہیں جو امریکی امداد قرض کی صورت میں پاکستانی حکمرانوں کو ملتی ہے اپوزیشن کے دنوں میں اسے کشکول پالیسی کہتے ہیں، حکمران بن کر اس سے بڑا کشکول پکڑ لیتے ہیں لکین یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ بیرونی قرضے کہاں جاتے ہیں ازیت میں نہ لوگوں کو مرنے دیا جاتا ہے نہ جینے دیا جاتا ہے۔

چند لاکھ میں نوجوان کیا کریں گے ایک لاکھ کو قرضے ملیں گے تو باقی نوجوان کیا کریں گے دس کروڑ میں سے نو کروڑ 99 لاکھ نوجوان وہی کریں گے جو آجکل کررہے ہیں اگر یہ سب متحد ہوکر باہر نکل آئے تو حکمران کیا کریں گے ڈارصاحب نے مہنگائی کرکے اعوام کا جو حال کردیا ہے وہ بد حال تو پہلے ہی تھے اب بے حال ہوگے ہیں۔

نوجوانوں کو قرضے دے کر باعزت روزگار بنانے کے بجائے مقروض بنادیا جائے گا ن لیگ حکومت نے اگر یہ قرضہ لون اسکیم متعارف کروائی ہے تو ن لیگ کا اپنا زاتی مفاد زیادہ ہے اور وہ ہے شرع سود کی شکل میں اور اسکے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے گے۔