اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا انکوائری کمیشن غیر آئینی ہے۔
قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس ایوان کو یر غمال بنایا ہوا ہے لیکن ہم اس ایوان کی عزت کرتے ہیں، یہ ایوان عوام کے حقوق کا ضامن ہے اور ہم اس کے ترجمان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایوان کا احترام نہیں کریں گے تو جارج اورول کے ناول کے مطابق عکاسی کریں گے، عوام نے ہر آمر کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا جو ان کا اصل مقام تھا، پاکستان حاصل کرنے میں کردار ادا کرنے والی محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا، شہید بھٹو کو جیل میں ڈال دیا گیا لیکن شہید بھٹو نے آمر کے ہاتھوں مرنے کی بجائے تاریخ میں زندہ رہنا پسند کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شہید بی بی نے جمہوریت کے لیے قربانی دی، لوگوں نے جیلیں بھریں، اس ایوان کی حرمت کے لیے قربانیاں دیں، دہشت گردی کا مقابلہ کیا جانیں دیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے ہے، اپوزیشن کا کام احتجاج کرنا ہے لیکن وزیراعظم اس احتجاج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور بجٹ کو اکھاڑہ بنا دیا گیا ہے۔
پی پی چیئرمین نے دیگر ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے ارکان کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے، دیگر ارکان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری کیے جائیں۔
اس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ مجھے ہفتے کو ان کی درخواست ملی ہے جسے وزارت قانون کو بھیجا ہے، اس کے جواب میں بلاول کا کہنا تھا کہ آپ سے بحث نہیں کرسکتا، اسپیکر کو وزارت قانون سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں اسپیکر صاحب آپ خود بااختیار ہیں، تاریخ میں لکھا جائے گا بجٹ کی منظوری وقت وزیرستان کی نمائندگی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں، جو فیصلے لیے جارہے ہیں وہ آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں، اگر وزیراعظم اپوزیشن کی سیاست کریں گے تو ملک کے مسائل کون حل کرے گا، معاشی خود کشی سے ملک کو کون بچائے گا؟
قومی اسمبلی میں خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تعمیری تنقید ضروری ہوتی ہے، جمہوریت میں آزاد اور شفاف بحث پر درست رائے سامنے آتی ہے جس سے عوام کے مسائل کا بہترین حل نکالا جاتا ہے لیکن نئے پاکستان میں نہ عوام آزاد ہیں، نہ سیاست، نہ میڈیا آزاد ہے۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایوان میں میرے ہر دوسرے لفظ کو حذف کرنا بھی سنسر شپ ہے، میں اور آپ نے نئی تاریخ رقم کی ہے اور میری غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر نے سیلیکٹڈ کے لفظ پر پابندی عائد کی ہےجس کا مطلب ’چوزن‘ ہے، لیکن وزیراعظم کی انا کی وجہ سے یہ پابندی لگائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ یہاں ایوان میں ارکان اسمبلی کچھ بول نہیں سکتے اور اپوزیشن کے بولے لفظ بھی حذف کیے جاتے ہیں، آپ کے پاس اختیار ہے کہ ہمارے الفاظ حذف کر دیں لیکن حکومت کا کوئی لفظ حذف یا پابندی نہیں لگائی جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ جب میں نے پہلی بار سلیکٹڈ لفظ بولا تو وزیر اعظم نے ڈیسک بجائے تھے لیکن اب ایک سال بعد آپ نے اس لفظ پر پابندی لگادی تو آپ کی مرضی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر وہ سیلیکٹڈ نہیں تو انتخابی دھاندلی کے لیے کمیٹی کیوں بنائی گئی؟ ہمیں نہ میڈیا سنسر شپ قبول نہ کٹھ پتلی کی غلامی قبول ہے، نہ ہی سیاسی سنسرشپ قبول ہے اور نیا پاکستان سنسر پاکستان ہے جو ہمیں نامنظور ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سنسر شپ سے ماحول بہتر ہوگا تو میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ آگ پر تیل ڈال رہے ہیں، مسائل کو چھپا کر ان سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا، سنسرڈ پاکستان حل نہیں آزاد پاکستان حل ہے۔
بجٹ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ تمام صوبے شارٹ فال پر چل رہے ہیں اور سندھ کو بھی 116 ارب روپے کم ملیں گے، ہمارے بہترین اسپتال وفاقی حکومت نے لے لیے،کیا کوئی شرم ہے؟ اگر یہ کرنا تھا تو اتنی شرم کرتے تھوڑا بجٹ بھی خود رکھ دیتے۔
بلاول بھٹو زرداری کے مطابق آئی ایم ایف کے کہنے پر معاشی خود مختاری کو داؤ پر لگا دیا گیا، وعدہ ایک پاکستان کا کیا گیا لیکن ایک نہیں دو ہاکستان ہیں، پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ امیر کے لیے ریلیف اور غریبوں کے لیے ٹیکس لگائے گئے، چور ڈاکوؤں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہے اور غریبوں کا معاشی قتل کیا جا رہا ہے، آپ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری کے نام پر بھینسیں گائے بیچ دیں لیکن بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات بڑھا دیے، کہا گیا جب وزیراعظم ایماندار ہوگا اور ہینڈ سم ہوگا تو لوگ پیسے بھیجیں گے لیکن ہوا کیا ہے کہ کوئی بھی معاشی ٹارگٹ پورا نہیں کیا گیا اور جب خان آیا تو معیشت بد سے بدتر ہوگئی۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا گیا جو پورا نہیں ہوا، چھوٹے کاروبار تباہ کیے جا رہے ہیں، غریب کی جھونپڑی حرام لیکن بنی گالہ کا محل حلال ہے۔
نیب کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ خوف اور عدم استحکام کسی بھی معیشت کی موت ہوتی ہے اور نیب گردی سے پی ٹی آئی حکومت معشیت کو نقصان پہنچا رہی ہے، نیب گردی اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے، اس صورتحال میں بزنس مین اور بیوروکریسی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا 5 لاکھ روپے پر حساب دینے کے حوالے سے کہا ہے کہ سنا ہے کہ اب اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپے پر بھی حساب دینا ہے، اب غریب جو محنت سے ایک ایک روپے جوڑتے ہیں، ان کو بھی حساب دینا پڑے گا اور انہیں بھی جواب دینا ہوگا تو یہ ظلم ہے۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ دو غلی پالیسی بند کرو اور بجٹ واپس لو، آپ نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں پانچ ہزار ارب روپے قرض لیے یہ تو ن لیگ کی اسپیڈ سے بھی زیادہ ہے، یہ روزانہ پندرہ ارب روپے کے قرضے لے رہے ہیں، یہ کس منہ سے قرضے کا حساب مانگ رہے ہیں، پہلے یہ اس پیسے کا حساب دیں؟
انکوائری کمیشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا اعلیٰ اختیارتی کمیشن غیر آئینی ہے، یہ ایوان بالادست ہے، جو ادارے اس ایوان کو جوابدہ ہیں وہ کیسے اس ایوان کا احتساب کرسکتے ہیں؟ ہمیں آمروں کے اقدامات سے اور ربڑ اسٹیمپس پارلیمانوں کے فیصلوں سے تحقیقات کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے برطانیہ میں تحقیقات کے لیے جو پیسہ ضائع کیا اس کی تحقیقات کی جائیں، کمیشن کارکے اور ریکوڈک فیصلوں سے تحقیقات شروع کرے۔
رکن قومی اسمبلی نے حکومت اپنی تمام پالیسیوں پر نظرثانی، عوام دشمن بجٹ واپس لینے اور قائد اعظم کا پاکستان دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ غریبوں کی جھونپڑی حرام اور بنی گالا حلال؟ دوغلہ نظام نہیں چلے گا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ن لیگ کی آف شور کمپنی حرام اور عمران خان کی حلال؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ الطاف حسین کی فارن فنڈنگ حرام اور پی ٹی آئی کی حلال؟
پی پی چیئرمین نکا کہنا تھا تحریک انصاف کی حکومت میں تھوڑا انصاف ہونا چاہیے، ہر ادارہ دباؤ میں ہے، عدلیہ کے عزت دار ججز کے خلاف ریفرنس، نیب چیئرمین کے خلاف وزیراعظم کے دفتر سے سازش ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا آپ کو انصاف کرنا ہوگا، جمہوری راستوں پر چلنا پڑے گا ورنہ آپ کو گھر جانا پڑے گا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 2008 سے 2018 تک کے قرضوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایا ہے جس کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کررہے ہیں۔
اس انکوائری کمیشن میں 12 ارکان ہوں گے جن میں اسٹیٹ بینک، ملٹری انٹیلیجنس، آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی، وزارت خزانہ کے اسپیشل سیکریٹری اور اے جی پی آر کے نمائندے شامل ہوں گے۔