اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور ان کے انعقاد پر 18 ارب روپے خرچہ آئے گا۔
بلدیاتی انتخابات سے متعلق اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے کہیں زیادہ بڑے ہیں ، پنجاب میں بلدیاتی حلقوں کی تعداد 25 ہزار اور خیبر پختونخوا کی 4 ہزار ہے ، بلدیاتی انتخابات کے لیے پنجاب میں 20 کروڑ اور کے پی میں 10 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپنا ہوں گے جب کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز کی تعداد عام انتخابات سے 4 گنا زیادہ ہو گی۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر 18 ارب روپے خرچہ آئے گا جب کہ پیپرز رولز کے تحت الیکشن مواد کی خریداری میں 3 ماہ لگ سکتےہیں ۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخاب 8 اپریل اور دوسرے میں 29 مئی کو کرایا جائے جب کہ پنجاب میں 20 جون، 16 جولائی اور 8 اگست کو الیکشن کا انعقاد کیا جائے، کینٹ میں 8 اپریل اور 29 مئی کو بلدیاتی انتخاب کرایا جائے۔
اس موقع پر وزیر قانون کے پی کے نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے 15 ستمبر کو بلدیاتی انتخابات کی تجویز دی، کے پی میں کورونا بڑھ رہا ہے اور ایسےمیں بلدیاتی انتخابات کرانا مناسب نہیں، صوبائی حکومت بلدیاتی قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔
اس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلدیاتی قانون میں ایسی ترمیم نہ کی جائے جس سےالیکشن کمیشن کاانتخابی پروگرام متاثرہو۔
وزیر قانون پنجاب نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پنجاب حکومت ستمبر میں بلدیاتی انتخابات کرانےکےلیے تیار ہے البتہ حکومت بلدیاتی قانون میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے، پنجاب میں تین مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرنےکی تجویزسے اتفاق کرتےہیں،اضلاع کی بجائے ڈویژن میں مرحلہ وار انتخابات کرائے جائیں۔
چیف سیکرٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اگست سے قبل نہ کرائےجائیں تاکہ انتظامی معاملات مکمل کرلیں۔
ڈی جی ملٹری لینڈ نےتجویز دی کہ کینٹ میں انتخابات ایک ہی مرحلے میں کرائے جائیں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اجلاس میں کہا کہ مردم شماری کے نتائج کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا، اس پر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات نہیں کراسکتے۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان نے کہا کہ عبوری مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حد بندی نہیں کی جا سکتی، بلوچستان میں بلدیاتی قانون میں اہم ترامیم لانا چاہتے ہیں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بلوچستان میں حدبندی کا کیس ہائیکورٹ میں زیرالتواہے، اگلی سماعت 5 اپریل کو ہو ہے۔
اس موقع پر جوائنٹ سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ عبوری مردم شماری نتائج کی بنیاد پر حد بندی نہیں کرا سکتے۔