تحریر : ڈاکٹر محبوب حسین جراح جنرل مشرف کے ہوشربا دور میں جہاں ملک میں ہنگامہ آرائی رہی وہیں اس کے دور میں اقتدار نچلی سطح میں منتقل کرنا بھی ایک اہم کارنامہ تھا اس دور میں ایم این اے اور ایم پی اے کی اہمیت اپنی جگہ تھی لیکن جو پروٹوکول اور اختیارات ضلع ناظم اور تحصیل ناظم کوتھے حتٰی کہ یونین کونسل کے ناظمین بھی اپنا ایک وجود رکھنے رلگے تھے روپے پیسے کی ریل پیل کی بدولت ہر طرف ترقیاتی کام کی سیل لگی ہوئی تھی ۔پہلی دفعہ عام عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ایم این اے اور ایم پی اے کی محتاج نہیں تھی۔جب مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا توبعد میں آنے حکمرانوں نے بھی عوام کو پھر سے ممبران قومی اسمبلی کے مرہون منت کر دیا۔
پنجاب کے حکمرانوں کو تو ویسے بھی مشرف سے چڑ نے عوا م کو اس نظام سے دور رکھنا تھا اس کے بعد بھی وہ اپنا نظام نہ لاسکے مقصد عوام کو لولے پاپ دے کر وقت ٹپانا ۔اللہ بھلے کرے اعلیٰ عدلیہ کا جنہوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرے اس پر چاروناچار 2015میں الیکشن کروا دیئے لیکن حیلوں بہانوں سے اس پراسس کو لٹکا یا گیااب چئیرمین شپ کا آخری مرحلہ مکمل ہونے پر اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو جائے گا ؟جس کا شیڈول جاری کر دیا گیا جس کے مطابق کاغذات نامزدگی 9اور10دسمبر کو کراوئے جائیں گے ۔ کاغذات کی جانچ پڑتال 11اور12دسمبر کو کئے جائیں گے۔
14دسمبر کاغذات کے مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں کی جاسکیں گی ۔جن کا فیصلہ 15دسمبر کو کیا جائے گا جبکہ 16دسمبر کو کاغذات نامزدگی واپس لئے جا سکیں گے اور اسی دن امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کئے جائیں گے ۔ جبکہ 22دسمبر کو پولنگ ہو گی انتخابی نتائج کا اعلان 23دسمبر کو کیاجائے اور کامیابی کا سرکاری نوٹیفیکیشن 28دسمبر کو کیا جائے گا ۔نئے منتخب ہونے والے چئیرمین 31دسمبر کو حلف اٹھائیں گے اور اس طرحٔ نئے بلدیاتی ادارے طویل ترین انتظار کے بعد بالآخر نئے بسال کے آغازپرفنکشنل ہو جائیں گے ۔کیا بدلیاتی نظام عوام النا س کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں ؟اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو سوال یہ ہے آخر اس عوامی عمل کو کیوں پس پشت ڈالا گیا کیوں ان کو فعال کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی ؟ کیوں عوام کو براہ راست اپنے عوامی نمائندوں سے دور رکھا گیا اور اسی طرح عوام میں سے ہی منتخب ہونے والے لیڈروں کو عوام سے دور رکھ کر عوامی مسائل کو گھمبیر کیا گیا آج سڑکیں دیکھیں ، سیوریج سسٹم دیکھیں ،ہسپتال کی صورتحال کو دیکھیں ،ناجائز تجاوازات کو دیکھیں الغرض آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ آج جب یہ پراسس مکمل ہو گا تو یقینا ایک عام آدمی اپنے گلی محلے کے مسائل کو خود ہی حل کروا سکے گا ۔قارئین محترم ضلع چئیرمینی اس دفعہ بھی چکوال کے مقدرمیںآ رہی ہے ضلع تلہ گنگ کے لولی پاپ کے باعث آنے والے الیکشن سے پہلے پہلے ضلع تلہ گنگ کا اعلان ممکن ہے جس کے لئے اس حلقے کے ممبران اسمبلیوں کو خاموش رہنے پر مجبور کیا جائے گا ۔ملک نعیم اصغر اس سیٹ کے لئے ہارٹ فیورٹ ہیں البتہ نائب ناظمی کے لئے تلہ گنگ سے دو نام سامنے آرہے ہیں ایک سردار ممتاز خان ٹمن کے جانثار حکیم یاسر عزیز جو ملتان خورد یونین کونسل کے چئیرمین بھی ہیں اور دوسرا نام یونین کونسل بڈھر کے چئیرمین ملک طارق اسلم ڈھلی جو ملک سلیم اقبال اور ملک شہریار خان کے حمایت یافتہ ہیں۔
Election
جبکہ تحصیل تلہ گنگ میں مسلم لیگ ق کی واضع اکثریت کے باعث چئیرمین کی سیٹ کے لئے ملک نعیم طارق کا نام زبان زد ہے جو اپنی صاف گوئی کے باعث مشہور ہیں یہ لگی لپٹی کے بجائے مخالف کے منہ کہہ دیتے ہیں یہ ضلع چکوال کے نائب ناظم بھی رہ چکے ہیں ، مخالفین ان کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ حافظ عمار یاسر کو ملک نعیم طارق کوچئیرمین بنا مجبوری ہے اور نہ بنانا بھی خطرے سے خالی نہیں یعنی وہ جائیں تو جائیں کہاں کے مترادف انہیں چئیرمین شپ دینی پڑی گی اس پر ایک میرے پیارے دوست نے کمنٹس دیتے ہوئے کہاکہ چونکہ ملک نعیم طارق جلدغصہ میں آنے والی شخصیت ہیں ان کے اس مزاج کی وجہ سے وہ عوام میں جلد اپنی مقبولیت کھو دیں گے جس پر آنے والے وقت میں حافظ عمار یاسر کو ان ہاوس تبدیلی کرنی پڑی گی ۔میں یہ سن کر حیران ہوا کہ یہ کیونکر ممکن ہو گا۔
اس وقت مسلم لیگ ق کے تمام ممبران ایک فیملی کی طرح متحد ہیں اور ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہیں اور تلہ گنگ کی عوام کی خدمت کے لئے پرجوش ہیں ۔بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ملک نعیم طارق اپنے اس مزاج میں تبدیلی لاکر اپنے مخالفین کو سرپرائز دیں گے یا؟؟؟؟۔تلہ گنگ میونسپل کمیٹی کے وائس چئیرمین کے لئے ملک زاہد اعوان تریڑ کا نام سامنے آرہاہے اور دوسرا نام خواجہ ناصر آفتاب ایڈووکیٹ جومنجھے ہوئے سیاست دان شیخ سعید کی چوائس پر یوتھ کی سیٹ پر منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے ہیں وائس چئیرمین شپ کے لئے انکے لئے لابنگ کی جارہی ہے دیکھیں قسمت کی ہما کس کے سر بیٹھتی ہے؟ تحصیل لاوہ کی صورتحال کی بات کریں تو وہاں بھی مسلم لیگ ق واضع اکثریت کے باعث اپنا چئیرمین لانے کی پوزیشن میں ہے جس کے لئے ملک کبیر الطاف کا نام سامنے آرہا ہے جبکہ وائس چئیرمین کے لئے آزاد امیدوارملک آصف نوازکا نام دیا جارہا ہے جو اس وقت مسلم لیگ ق کو جوائن کرچکے ہیں اس سے پہلے لاوہ کی معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر شاہنواز کا نام لیا جارہاتھا جنہوں نے خود قربانی دیتے ہوئے وائس چئیرمین کے لئے ملک آصف نواز کا نام تجویز کیا۔ اس طرح لاوہ میں صورتحال واضع ہے ۔ اب تک کی صورتحال کے مدنظر رکھتے ہوئے حافظ عمار یاسر نے اپنے سیاسی مخالفین کو چارو شانے چت لیٹنے پر مجبور کیا تھا کااصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے وہ اپنی جان نثار ٹیم کے ذریعے عوام الناس کی خدمت میں کہاں تک کامیاب ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔