مقامی طلب پوری کرنے کیلیے پھل کی درآمد میں اضافے کا رجحان

Fruits

Fruits

کراچی (جیوڈیسک) پاکستانی پھل اور سبزیوں کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں معیار اور قرنطینہ سے متعلق سخت قواعدو ضوابط کا سامنا ہے تاہم خود پاکستانی مارکیٹ میں درآمدی پھلوں کی بھرمار ہے۔

پاکستان میں درآمد کیے جانیوالے بیشتر پھل خود پاکستان میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن امیر طبقے میں درآمدی پھلوں کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب اب پاکستان میں بھی درآمدی پھلوں کی بھرمار ہے اور درآمدات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔

رواں سال رمضان میں پھلوں کی طلب پوری کرنے کیلیے بیرون ملک سے سیب، انگور، ناشپاتی، کیلے اور آم درآمد کیے گئے جبکہ حال ہی میں اورنج بھی درآمد کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ کوالٹی کے سیب، انگور، آم اور ترش پھلوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار کے باوجود پھلوں کی درآمد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

اس سال پاکستان کے آم مارکیٹ میں آنے سے قبل بھارت کا الفانسو آم کشمیر کے راستے پاکستان میں لاکر ٖفروخت کیا گیا۔ اسی طرح بھارتی انگور اور کیلے بھی کشمیر کے راستے پاکستان پہنچے۔ بھارتی کیلے اور انگور کراچی کی منڈی تک فروخت ہوئے۔

اس سال پاکستانی منڈیوں میں نیوزی لینڈ، تھائی لینڈ اور چلی سے درآمد شدہ سیب بھی فروخت کیا گیا۔ رمضان میں پاکستانی سیب کی اچھی کوالٹی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی سیب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوا۔

درآمدی سیب کی قیمت 300 سے 350 روپے فی کلو تک وصول کی گئی چین سے بھی سیب درآمد کیا گیا جس کی قیمت 250 سے 300 روپے کلو تک وصول کی گئی۔ اس کے برعکس پاکستانی سیب 150 سے 200 روپے کلو میں فروخت ہوا۔

ساؤتھ افریقہ اور مصر سے درآمد کیے گئے اور نجز 420 روپے فی درجن تک فروخت کیے گئے۔ چین سے درآمد کردہ ناشپاتی 200 روپے کلو تک فروخت ہوئی جبکہ چینی انگور 350 سے 400 روپے کلو تک فروخت ہوئے۔