تحریر : طارق حسین بٹ انسانی تاریخ با جرات انسانوں کی داستان ہے۔ تاریخ کسی بزدل اورکائر کی نہیں بلکہ دلیر اور جری انسانوں کی ہی قصیدہ گری کرتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے موقف کی سچائی کی خاطر انسانوں نے ہمیشہ دارو رسن کو چوما ہے ۔جرات مندی کا تعلق کسی مذہب،علاقہ یا ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان کے اندر اس کی ذاتی خودی کی قوت اس کی جرات کا تعین کرتی ہے۔تاریخ میں سقراط جیسا انسان بھی ہے جس کا شائد کوئی مذہب نہیں تھا ۔یہ تو طے ہے کہ وہ یہودیت ،ہندومت ، بدھ مت،زرتشتیت یا بت پرستی کا پیرو کار نہیں تھا حالانکہ اس وقت یہودیت ہی واحد مذہب تھا اور سارے انبیاء کا تعلق بنی اسرا ئیل سے تھا۔
بہر حال مذاہب کی حقیقی تصویر تو حضرت عیسی علیہ اسلام کی عیسائیت اور حضرت محمد مصطفے کے اسلام کے ظہور سے زیادہ نکھر کر سامنے آئی ہے۔پہلے سارے مذاہب مقامی ہوا کرتے تھے اور ایک خاص مدت کے بعد نئے نبی کے ظہور کے ساتھ ہی پرانی شریعت اور تبلیغ کا سلسلہ منقطع ہو جاتا تھا اگر چہ اس زمانے میں یہودیت ہی واحد مذہب تھا لیکن یہودیت میں داخل ہونے کی ہر کس و ناکس کو اجازت نہیں تھی ۔اس لئے یہ مذہب مخصوص حد تک ہی عوامی پذیرائی کا حامل رہا ۔آج بھی یہودیت کی یہی کیفیت ہے کہ اس کے دروازے صرف مخصوص نسل کیلئے کھلے ہوئے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ یہودیت نسلی مذہب ہے۔
اتنی صدیاں گزر جانے کے باوجود یہودیت کی آبادی انتہائی قلیل ہے کیونکہ یہودی بننا اتنا آسان نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ یہودیت کو کاری ضرب لگانے میں روڈلف ہٹلر اور بخت نصر کا بڑا اہم کردار رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہودیت کبھی بھی اکثریتی عوام کا مذہب نہیں رہا ۔یہ شرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس میںہر کوئی داخل ہو سکتا ہے کیونکہ اسلام قبول کرنے کیلئے آبائو اجداد کا شجرہ نسب درکار نہیں ہوتا۔اسلام کی مقبولیت کا واحد راز یہی ہے کہ اس میں بندہ و آقا کی کوئی تمیز نہیں ہے کیونکہ یہ مذہب سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔دیکھئے اقبال اس حقیقت کو کس خوبصور ت انداز میں بیان کرتا ہے۔،۔مذہبِ او قاطع رنگ و نسب ۔،۔ از قریش و منکر از فضلِ عرب
Media
موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اور اس میں ذرائع ابلاغ نے پوری دنیاکو گلو بل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے۔اگر چہ عیسائیت اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پھیلائو اسے اگلے چند برسوں میں دنیا کا سب سے بڑا مذہب بنا دیگا اور اسی بات نے عیسائیت کے علمبرداروں کو پریشان کر رکھا ہے۔مسلمانوں سے خائف عیسائیت اور یہودیت کی چیرہ دستیوں کے پیچھے بھی اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت سے ان کا خوفزدہ ہونا ہے ۔اسلام کی اشاعت اور اس کی ترویج ان دونوں مذاہب کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔عیسائیت اور یہودیت کی باہمی آویزش سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں لیکن جب مقابلہ اسلام کی بیخ کنی کا ہوتو یہ دونوں مذاہب باہم یکجا ہو کر اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے متحد ہو جاتے ہیں۔
پوری مسلم دنیا میں امریکہ اور یورپ کی سازشوں کے پیچھے یہودی ذہن کام کرتا ہے اور یہ سارے متحد ہو کر اسلام کو بدنام کرنے اور اس کا پر امن چہرہ مسخ کرنے کی کوشش میںجٹے ہوئے ہیں ۔ہندو ترا بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتا اور انھیں قوت فراہم کرتا ہے لہذا یہ مثلث اسلام کی بیخ کنی میں اپنی ساری تونائیاں صرف کر رہی ہے۔کمال یہ ہے کہ یہ سارے باہم مل کر اسلام کو گزند پہنچانے کی جتنی کوششیں کرتے ہیں اسلام اتنا ہی ہی زیادہ توانا اور طاقت ور ہو کر ابھررہا ہے۔ابھی تو حال ہی میں لندن کے مئیر کا انتخاب بھی ایک مسلم شخصیت صادق خان نے جیت کر ثابت کیا ہے کہ اسلام کے پیرو کار امن و آشتی اور محبت کے علمبردار ہیں۔ یہ تینوں اسلام دشمن باہم مل کر جتنی مرضی کاوشیں کر لیں نتیجہ ان کی خواہشات کے بر عکس ہی نکلے گا۔
نورِ خدا ہے کفر کی حالت پہ خندہ زن۔،۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائیگا مشرقی وسطی ہو، فلسطین ہو، کشمیر ہو یا اسلامی دنیا کے دوسرے ممالک جن میں افغانستان، شام، عراق، لیبیا، یمن، سوڈان زیادہ اہم ہیں ان تمام قوموں کی سازشوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ایک خانہ جنگی کی کی کیفیت ہے جو ان مسلم ممالک میں برپا ہے ۔کئی ممالک کئی کئی حصوں میں تقسیم ہو رہے ہیں اوران کی معیشت انتہائی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ملک بدری اور ہجرت کا زخم علیحدہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالی پر اپنا یقین اور اس کے محبوب حضرت محمد مصطفے ۖ سے اپنی عقیدت کو کم نہیں ہونے دیتے۔وہ ناموسِ رسالت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرا نے دیتے جاتے ہیں اور حق صداقت کے نعرے بلند کرتے جاتے ہیں۔
Allama Iqbal
علامہ اقبال کی ایک مشہورو معروف نظم تھی ابلیس کی مجلسِ شوری ۔کمال کی شاعری ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ اغیار کی ساری سازشوں کا ایک ایک کر کے اقبال نے انہی کی زبان سے امتِ مسلمہ کے اذہان میں سمو دیا ہے۔شیطان امتِ مسلمہ کی ہلاکت کی جو ترکیب بتا تا ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم کو مارنا ہے تو رسول اللہ ۖ کی محبت اس قوم کے قلب و نظر سے نکال دو یہ قوم خد بخود مردہ جائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس محبت کو کون نکال سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ ۖ سے محبت ہی تو حقیقی اسلام ہے۔ وہ کون ہے جو روح کو جسم سے جدا کر سکتا ہے ؟(ابلیس کی زبان سے سنئے) وہ فاقہ مست جو موت سے نہیں ڈرتا ۔،۔ روحِ محمد ۖ اس کے بدن سے نکال دو۔ اگرمصر میں اخوان المسلمون والے ہیں ، تو ترکی میں بھی وہی ہیں،الجزائر میں بھی وہی ہیں،بنگلہ دیش میں بھی وہی ہیں،پاکستان میں بھی وہی ہیں۔اب کتنوں کو سولیوں پر چڑھائو گئے؟کتنوں کا لہو بہائو گئے؟کتنوں کے جگر چاک کروگئے، کتنوں کی زندگیوں کا خاتمہ کرو گئے؟ کتنوں کو موت کی وادی میں بھیجو گئے؟اور کتنوں کو زندہ در گور کروگئے؟حسن البناء کی شہادت سے تمھارا دل نہیں بھرا ؟۔
قطب شہید سے تمھاری روح کی تسکین نہیں ہوئی ؟ٹینکوں اور توپوں سے ہزاروں لوگوں کو روندھ دینے سے تمھیں تشفی نہیں ہوئی ؟ ہر گھر میں صفِ ماتم بچھانے سے تمھاری رگِ حمیت نہیں پھڑکی ؟زندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں حریت پسندوں کو اذیتیں دینے سے تمھیں سکونِ قلب نصیب نہیں ہوا ؟ ہزاروں گھرانوں کو اجاڑنے سے تمھیں حیا نہیں آئی؟سکولوں کے طلباء و طالبات کو زنجیروں میں جکڑنے سے تمھارے دل و دماغ میں رحم نام کی کوئی کرن نہیں پھوٹی؟یاد رکھو یہ سارے فسطائی حربے استعمال کرنے کے بعد بھی تمھیں کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا کیونکہ حق کی خاطر جان دینے والے جس کاروانِ حریت کو تم مٹانے پر تلے ہوئے ہو وہ چھوٹا ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔کوئی مانے یہ نا مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز انسان کا مقابلہ خدا کی چوکھٹ پر سجدہ ریز انسان سے کبھی نہیں ہو سکتا۔سچ تو یہ ہے کہ خدا کے دین کی حرمت پر کٹ مرنے والے جان کا سودا کرتے ہیں اور جان کا سودا وہی کرتے ہیں جو سچائی کے پیکر ہوتے ہیں۔
مفادات کا کھیل کھیلنے والے اپنی جان کا نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا کھیل کھیلتے ہیں جس میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔مصر میں فتح السیسی ہے تو بنگلہ دیش میں حسینہ واجد ہیں دونوں میں ایک ہی قدرِ مشترک ہے کہ جس کے ہاتھ میں حق کا پرچم اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہاتھ کٹ سکتے ہیںلیکن حق کا پرچم سرنگوں نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی قوت کا منبہ وہ مالکِ ارض و سماء ہے جسے کبھی زوال نہیں ہے۔جس طرح اس کا نام سدا رہے گا اسی طرح حق کی خاطرجان دینے والوں کو بھی موت نہیں آیا کرتی ۔کیا شہید بھی کبھی مرا کرتے ہیں؟ سنئے حریتوں پسندوں کی للکار کو اور سرنگوں ہو جائے اس للکار کے سامنے۔