معیار محبت اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

وقوع محبت کامدار تین وجوع پہ منحصر ہے (١)سماعی (٢)شرعی (٣)عقلی
اب انکی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ پہلے مطلقا اس کاذکر محبت کیاجائے گا پھر اسکے بعد میں اسکااطلاق ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کرکے یہ نقطہ قارئین کے زہین میں راسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جس بھی وجہ سے محبت وقوع پذیر ہوتی ہے و ہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتم درجہ موجود ہے بس یہ ہی جملہ اس پورے مکالے کا اجمال ہے اب چلتے ہیں اسکی تفصیل کی جانب (١)سماعی کہ کسی بھی شخص کے زمانہ گزر جائے اس کے ذاتی تعلقات بھی نہ ہو مگر اس کے اوصاف سن سن کے انسانی قلوب انکی محبت کی طرف کچھیں جاتے ہیں جیسے کہ حاتم تائی کی سخاوت کہ ہر عام و خاص جانتا ہے کہ حاتم تائی سخی تھااور جس کے دل میں جو بھی محبت ہے وہ صرف اس کی سخاوت کی وجہ سے ہے۔

مگر اس ہی لئے اگر کوئی شخص بہت زیا دہ محبت کرے تو لو گ ازروئے محبصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے اس کو حاتم تائی کہتے ہیں اب کسی کو معلوم نہیںکہ اسکی سخاوت کیسی تھی کتنی تھی مگر بس سن سن کے اس کی محبت دل میں اتنی بس گئی ہے کہ ہر فرد اسکا محب نظرآتا ہے اس ہی طرح ذکر لیلی کہ ہر وہ شخص جو کسی کے عشق میں گرفتا ر ہو تا ہے اسکو لیلی کے عشق سے تعبیر کرتے ہیںاور یہ کوئی یقینی بات نہیں کہ لیلی کا کوئی وجود صلی اللہ عصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وآلہ وسلم تھا یا نہیں مگر سن سن کے اسکے نام سے ہر عاشق مزاج کو محبت ہے یہ صرف سماع پہ ہی موقوف ہے
ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت سماعی ۔آج تک رو کائنات میں کتنے ہی ایسے لوگ آئے کہ جن کے کارناموں سے آج ہر طرف شہرہ ہے مگر کوئی ایسا فرد نہیں کہ جس کی عظمت و رفعت نعلین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بھی پہنچتی ہو کہ آج بھی ہر شخص ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے اپنی ذہن کومعطر و منور کر رہا ہے۔

مسلمان تو مسلمان یہاں تک کے غیر مسلموں نے بھی اآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کرنے میں اپنی رفعت سمجھی اسکے نظاہر سے کتب مالا مال ہیں مگرمیں وقت کی قلت اور مکالے کی اختصار کے پیش نظر صرف ایک اقتباس نظر قارئین کر تا ہوجس کو کرنل دارا سنگھ نے اپنی کتاب سیر ت رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھا لکھتا ہے کہ ”اے کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوتم ہی کچھ کہوسینکڑوں ریشیوں نے تمہاری شفقت او رپیار کی گود میں نواس کئے صدہا جو گیوں نے تمہارے تمہارے پہلوئے محبت میں جو گ کمائے ہزاروں تپیشیروں نے تمہاری آغوش الفت میں تپ دھارے لاکھوں گورئوں نے تمہارے ہاں چرن کنول ڈالے ۔ اے کوہ ہمالیہ مگر سچ کہنا کہیں دیکھا ہے تو نے وہ مکہ کا راج دلارا کہیں نظر پڑا ہے تجھے بھی وہ مدینہ کا پیارا اے تاجدار حرم سنتے ہیں تیری چھپ عجب موہنی تھی اور تیرا روپ انوپ تھا اے دلدار عرب کہتے ہیں تیری پریت کی جوت جس من میں جگی وہ بجھائے نہ بجھی جس آنکھ پر تیری نگاہ پڑی وہ پھر تیری ہی ہو رہی ”اسکے بعد کرنل دارا سنگھ نے چند اشعار بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بطور نذرانہ پیش کئے دیکھیئے یہ کوئی مسلم و مومن نہیں بلکہ اسلام کے مخالف مذہب سے وابسطہ ہے۔

مگر اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی مدحت سنی کہ وہ انکی مقدس ذات پہ ایک کتاب لکھنے پہ مجبور ہو گیا کہ اسکے زہن میں ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ اتنا مواد جمع ہو گیا کہ جس کو صفحہ قرطاس پہ لائے بن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن نہ کر سکایہ تو میں نے ایک مثال ذکر کی ہے اگر اسکی وضاحت کی جائے تو صرف اس ہی موضوع پہ ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جا سکتی ہے جسکا یہ مکالہ قطعا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن ہم اس ایک مثال سے ہی یہ بات اخذ کر سکتے ہیں کہ کل کائنات میں جو اوصاف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہرت کی بلندیوںکوچھو رہیں یہ اعزاز کل کائنات کے تمام افراد کو ملا کہ بھی حاصل نہ ہو سکا
(شرعی ) شرعی کا مطلب ہے کہ جس کو شریعت نے لازم قرار دیا ہوجیسے کہ والدین کی محبت اس لئے کہ اس محبت کا حکم خدا واحد نے عطا کیا ہے ان کی شان میں ہلکی سے بھی گستاخی گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ والدین کی تعظیم کا ذکر قران مجید میں ایا ہے حقوق والدین کے متعلق صرف اتنا ہی کا فی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی توحید کے ساتھ ہی والدین سے حسن سلوک کادرس بھی دیا اس کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایاکہ ”و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا وذی القربی والیتامی ولمساکین ”ترجمہ کنز الایمان جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے (سورة بقرہ آیت٨٣)اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالی نے جو احکام بیان کئے وہ تمام کے تمام بعد میں بیان کئے سب سے اول توحید کو رکھا اور اسکے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اور اسکے بعدبقیہ احکام کو اور اللہ تعالی ہر اس چیز کی ممانعت فرماتا ہے۔

جو والدین کی تکلیف و اذیت کا سبب بنے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ”ولاتقل لھما اف ولاتنھر ھماو قل لھما قولا کریما”ترجمہ کنزالایمان تو ان سے ہوں نہ کہنااور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا (سورة بنی اسرائیل آیت٢٣) والدین کے آگے اف تک بولنے کو بھی رب نے حرام قرار دیا تو اس سے بڑھ کہ کیا سکتا ہے اور جو والدین کی نافرمانی کرے یا والدین کی خدمت کر کے حصول جنت نہ کر سکے تو وہ بہت ہی بد بخت انسان ہے اس ضمن میں امام محمد بن اسماعیل البخاری نے حضرت ابو بکرة سے ایک حدیث پاک نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ”قال قال رسول اللہ الاانبئکم کم باکبر الکبائرقلنابلی یارسول اللہ قال الاشراک باللہ وعقوق الوالدین’ ‘ترجمہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابہ میں تمہیں سب سے بڑھے گناہ کے متعلق نہ بتاو صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ہاں تو پصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنا (بخاری کتاب الادب باب عقوق الولدین من الکبائر) آئیں اب قران مجید سے محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں پو چھتے ہیں کہ ان کے لئے کیسا عقیدہ ہو نا چاہیے چنانچہ اللہ کی لا ریب کتاب بتاتی ہے۔

کہ ”لاتجد قوما یؤمنون باللہ و الیوم الآخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ ولو کانو ااٰ بائھم او ابنائھم او اخوانھم او عشیرتھم اولئک کتب فی قلو بھم الایمان وایدھم بروح منہ ”ترجمہ تم نہ پائو گے ان لوگوں کو جویقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنمبے والے ہو یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی (سورہ مجادلہ ٢٢)گویا اس آیہ کریمہ میں اہل ایمان ہی انکو کہا گیا جو اللہ اور اسکے رسول کو اپنے آباء و اجداد و قوم و کنبہ سے زیادہ عزیز جانے اور اس ہی طرح کا پھر ان سے اجر کا بھی وعدہ فرمایا کہ جو اللہ و رسول کو سب سے زیادہ عزیز جانتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انکے قلوب پہ مہر ایمان کی تصدیق بھی کر دی اور صرف یہ ہی نہیںکہ آپکی محبت تمام اعمال سے مقدم رکھی جیساکہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت فرماتا ہے۔

Allah

Allah

”انا ارسلنک شاہدا و مبشراو نذیرا لتئومنو ا باللہ و رسولہ و تعزروہ و توقروہ و تسبحوہ بکرة و اصیلا ”ترجمہ بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی و ڈر سناتا تاکہ اے لوگوں تم اللہ اور اسکے رسول پہ ایمان لائو اوررسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو (سورہ فتح آیت ٩۔٨)اس آیہ کریمہ نے واضحا بتا دیا کہ ایمان کا مدار اعمال پہ نہیں بلکہ تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ہے اس ہی لئے تو ایمان باللہ کے بعدمحبت مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقدم رکھا ان دو آیات سے معلوم ہو ا کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت از روئے شرع بھی فرض ہے گویا کہ اگر کوئی صرف شریعت ہی کی تابعداری کرتا ہے تو اس پہ بھی محبت ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لازم آتی ہے اور اگر اس موضوع کی وضاحت درکار ہو تو کتب احادیث دیکھ لیں اور اس موضوع پہ کچھ احادیث اس ہی مکالے کے آخر میںایک ضمنی بحث میں ذکر کر دی جائیں گی۔

(٣) عقلی ۔عقل چار وجوع سے محبت کو جنم دیتی ہے (١)خوب صورتی (٢)خوب سیرتی (٣)ہمدردی (٤)رشتہ (١)خوب صورتی۔انسانی فطرت ہے حسن شیء کی جانب طنیعت انسانی مائل ہوتی ہے اس ہی لئے تو جب موسیٰ علیہ السلام کا فرعون نے امتحان کر نا چاہا تو آپ کے سامنے سونا اور انگارہ رکھا اور یہ نتیجہ نکالا کہ اگر کوئی عام بچہ ہو ا تو انگارے کی طرف ہا تھ بڑھائے گا یہ نتیجہ اس نے اس ہی لئے نکالا کہ انسانی طبعت زیادہ خوبصورت چیز کی طرف مائل ہوتی ہے اس مکمل واقعہ کی تفصیل سے سب ہی واقف ہیں اس لئے یہاں پہ اختصارا اس ہی گفتگو کو عرض کر دیاجو کہ سمجھنا مقصود تھی اب آئے جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاکچھ ذکر کرتے ہیںاور یقینا یہ ان ہی سے معلوم ہو گا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے تو آئو حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ سے حسن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق سنتے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ”واحسن منک لم تر قط عینی واجمل منک لم تلد النساء خلقت مبراء من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء ”ترجمہ میری آنکھ نے آپ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہ دیکھا۔

اور آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے جنا ہی نہیں آپ کو تمام عیوب و نقائض سے پاک پیدا کیا گویا کہ آپ کو آپکی مرضی کے مطابق پید فرمایا (تفسیر آلوسی زیرآیت سورہ یونس آیت٢و مغنی المحتاج الی معرفة الفاظ المنہاج)
(٢)خوب سیرتی۔اگر صرف کسی کا کردارہی اچھا ہے تو اسکی یہ ادا بھی موجد محبت ہے مثا ل کے طور پہ ہم نہیں جانتے کہ حاتم تائی کی صورت کیسی تھی مگر ہمارامعیار محبت اسکی سخاوت ہے اس لئے کہ سیرت حسنہ صفت ممدوحہ ہے آئو ذراسیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں کہ آپکی سیرت کیسی تھی اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہی بتائیں گے کہ انہوں نے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکیسا پایا کیوں کہ وہ شب و روز ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوئے ہیں چنانچہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضر ت مالک بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا کہ اے کائنات عالم کے لوگو
ما ان رایت ولا سمعت بمثلہ فی الناس کلھم بمثل محمد
اوفٰی واعطیٰ للجزیل اذااجتدی و متیٰ تشایخبرک عما فی غد
و اذا الکتیبة عردت انیابھا بالسمھری و ضرب کل مھند
فکا نہ لیث علی اشبالہ وسط الھباء ةخادر فی مرصد

ترجمہ میں نے تمام انسانوں میں کسی ایک کوبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مثل نہ دیکھا نہ سنا۔ سب سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والے اور سب سے ذیادہ عطا کرنے والے۔ اور جب تم چاہو ان سے پوچھ لو وہ آنے والے کل کی خبر دینے والے ہیں(١)سیرة ابن ہشام ذکر غزوة الطائف بعد حنین اسلام مالک بن عو ف (٢) تفسیر ابن کثیر زیر آیت نمبر٢٧سورة توبہ (٣) بدایہ و النھایہ(٤) اسد الغابہ(٥) المغازی) اس سے بھی معلوم ہو کہ اگر حسن سیرت کی وجہ سے کسی سے پیار کیا جائے تو وہ بھی ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کہ کوئی نہیںیہ مالک بن عوف ہے کون یہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ یہ وہ شخص ہیں جو قبل اسلام بھی قبیلہ ہوازن کا رئیس تھے جن کے منہ کے الفاظ یہ بتا رہیں ہیںکہ گویا انہوںنے اپنی ساری زندگی کا حالت حب و عدو کا مشاہدہ کا بانداز شعر اس پہرائے میں عالم کائنات کے سامنے پیش کر دیا۔

(٣)ہمدردی۔یہ تو بدہی ہی سی بات ہے کہ اگر کسی ایسے موقع پہ کوئی کام آئے کہ جس سے انسان کی زندگی بچ جائے تو اس سے پیار ہوجاتا ہے مثال کے طور پہ اگر ہمارے والدین میں سے کوئی اسپتال میں داخل ہو اور انکو خون کی کمی ہو تو وہاںپہ جاڑوں دینے والا ہی انکو خون دے دے اگرچہ نہ اسکی سیرت ہے نہ صورت نہ اسکا قردار ہے نہ معیار ہے نہ گفتار۔ مگرپھر بھی ہمارے دل میں ساری زندگی کے لئے وہ محبوب بن جا تا ہے کہ اس نے ہمارے والدین کی جان بچائی اس طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ بہت نامی گرامی مفتی و عالم بڑی بڑی تنظیموں کے سربراہ ایک شخص کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہیں اور انکی کوشش ہوتی ہے کہ انکی ناراضگی نہ ہو اور بسا اوقات انکی خوشی کی خاطر وہ بڑے بڑے قریبی لوگوں کو ناراض کر دیتے ہیں اگر اسکی وجہ پوچھی جائے تو بولتے ہیںکہ فلاں حملے میںاس نے میرے آگے آ کہ میری جان بچائی تھی گویا اس ہمدردی کی وجہ سے اسکی محبت دل میں گھر کر گئی بعد تمہیداب آئو اس ہمدردی کودیکھتے ہیں کہ یہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کس حد تک پائی جاتی ہے دیکھو زیادہ سے ذیادہ کوئی کسی کی جان ہی بچا سکتا ہے اس سے بڑا اور دنیا میں کوئی احسان نہیں مگر ایک ہستی ایسی ہے کہ جس نے بنی نوع انسانی پہ وہ احسان کیا کہ کل کائنات ان کے اس احسان کے نیچے دبی ہوئی ہے اسکی مثال پیش کرتا ہو ں چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

”وکنتم علی شفا حفرة من النارفانقذ کم منہاکذلک یبین اللہ لکم اٰیتہ لعلکم تھتدون”ترجمہ اورتم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں بچا دیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پائو (سورہ ال عمران آیت ١٠٣)اگرکوئی بچا سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ جان ہی بچا سکتا ہے نا پر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کل انسانیت کو نہ صرف اس دنیا کی زندگانی بلکہ ابد الآباد تک رہنے والی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے محفوظ و مامون کر دیا اس ہی لئے توآج بھی اہل اسلام ان کے نام کی خاطر بھی اپنی جان لوٹانے کے لئے تیار ہیں ۔یہ بھی ایک وقوع محبت کی موجد ہے۔

٤)رشتہ ۔ہر مومن کا ایک تعلق اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ ہوتا ہے وہ وہ تعلق ہے جو ایک بیٹے کو اپنے والد کے ساتھ ہوتا ہے کیوںکہ قران مجید حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ”وجا ء قومہ یھرعون الیہ ومن قبل کانوایعملون السیات قال یقوم ھولاء بناتی ھن اطہرلکم فاتقواللہ ولا تحزونی فی ضیفی الیس منکم رجل رشید”ترجمہ اور اسکے پاس اسکی قوم دوڑتی آئی اور انہیں آگے ہی سے برے کاموں کی عادت پڑی تھی کہااے قوم یہ میری (قوم کی )بیٹیاں ہیںیہ تمہارے لئے ستھری ہیںتو اللہ سے ڈرواور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کروکیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں (ہو د آیت ٧٨)اور اس بات کو ابو اعلی مودودی نے بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ لکھتا ہے کہ نبی اپنی امت کیلئے بمنزلہ باپ کے ہوتے ہیں (ترجمان القران سورة ھود حاشیہ )لیکن یہاں پہ میں اپنے قارئین کی توجہ چاہوں گا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اس سے بلند و بالا ہے اگر والدین دوران نماز نفل اولاد کو پکاریں اور والدین کو معلوم ہو کہ اولاد نماز میں ہے۔

تو حکم ہے کہ نفل توڑ کہ حکم والد بجالا ئے جائے مگر شان مصطفی یہ ہیکہ اگر فرض نماز میں بھی پکاریں تو دوران نماز ہی تکمیل حکم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضروری ہے ایک صحابی ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو مصطفی کریم نے پکارا تو انکو اس مسئلے کا معلوم نہ تھا جب نماز کے بعد حاضر ہوئے تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں جواب دینے سے کیا چیز مانع ہوئی عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز میں تھاا پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیاتو قران نہیں پاتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی کہ ”یایھا الذین امنوااستجیبواللہ وللرسول اذادعاکم لما یحییکم ترجمہ” اے ایمان والو اللہ اور اسکے رسول کے بلانے پر حاضر ہوجب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں۔

جو تمہیں زندگی بخشے گی (سورہ انفال آیت ٢٤)ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی بے شک آئندہ نہیں کروں گا(خزائن العرفان سورہ انفال حاشیہ ٤٠) اور اس ہی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںکہ ” عن انس رضی اللہ عنہ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و وولہ و الناس اجمعین ” ترجمہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسکو اسکے والد اور اولاد سے زیادہ عزیز نہ ہو جائوں (بخاری کتاب الایمان )اس لئے ان دو نصوص سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بڑے بھا ئی جیساماننا قران و حدیث کاواضحا انکار ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا منافی اسلام ہے اس میں توہین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین ہے لہذا ان نصوص قرانیہ و احادیث سے یہ بات معلوم ہو ئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق امت سے بمنزلہ والد کے ہیں یہ ہی عقیدہ صحابہ کرام کا بھی تھااور بارگاہ رب العز ت میں بھی ایمان صحابہ ہی کی طرز کاایمان ہی عند اللہ مقبول ہے۔

اللہ رب العزت خود فرماتا ہے کہ ”فان امنو بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا و ان تولوا فانما ھم فی شقاق فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم”ترجمہ پھر اگر وہ یوں ہی ایمان لائیں جیسے تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ انکی طرف سے تمہیں کفایت کرے گااور وہ ہی سنتا جانتا (سورة بقرہ آیت١٣٧ ) گویا مذکورہ بالا بحث کرنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ محبت کسی بھی بنا پہ کی جائے خواہ وہ عقلی و حسی ہو یا شرعی۔ہر اعتبار سے ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محبوبیت پہ فائز ہیں اور ہر وہ شخص جس میں ہلکی سی بھی فہم و فراست ہے وہ آپ کا عاشق ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو اہل ایمان کے لئے ہر محاذ و مقام پہ نجات و بخشش کا سامان ہے بس مولا اس ہی محبت میں ہمیں حیات و موت عطا فرمائے امین ثم امین۔

Mufti Mamoon ur Rasheed Qadri

Mufti Mamoon ur Rasheed Qadri

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری