تحریر : محمد ارشد قریشی گذشتہ کئی دنوں سے میڈیا، سوشل میڈیا پر دو نومبر کے لاک ڈاؤن کی دھوم مچی ہوئی تھی میڈیا نے بھی خوب زوردار تیاریاں کی تھیں، ٹی وی ٹاک شوز، بریکنگ نیوز، براہ راست نیوز کی خوب بہار آئی ہوئی تھی، عوام نے بھی خوب امیدیں وابسطہ کرلی تھیں کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا نعرے بھی خوب تھے تلاشی دو یا استعفی دو، اب کی ایمپائیر کی انگلی ضرور اٹھے گی حالانکہ عمران خان اچھے کرکٹر رہے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں اگر کسی بھی میچ کو کھیلنے سے پہلے ہی امید کرلی جائے کہ ایمپائیر اس کے حق میں انگلی اٹھائے گا تو ایسا سمجھنے والی ٹیم کی شکست یقینی ہوتی ہے۔
اس دفعہ صورت حال پچھلے دھرنے کے مقابلے میں مختلف تھی کامیابی کے چانس کچھ زیادہ اس لیئے نظر آرہے تھے کہ تمام اپوزیشن ہی اس معاملے میں ایک تھی اور عمران خان کے لاک ڈاؤن اعلان سے پہلے مشاورتی عمل بھی جاری تھا لیکن پھر ماضی کی طرح عمران خان صاحب کا دوسری جماعتوں سے اختلاف شروع ہوگیا جس کی سب سے بڑی وجہ ان کے دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے وہ الفاظ تھے جو عمران خان نے عوامی اجتماعات میں کہے تھے، کہیں وہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو ڈبل شاہ کہتے نظر آئے تو کبھی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو درباری کہہ کر للکارتے نظر آئے، کہیں کہا اوے چیف جسٹس دیکھو یہ کیا ہورہا ہے تو کبھی آئی جی اسلام آباد کو للکارا۔ایک عام پاکستانی کی طرح میں بھی تمام تر صورتحال کو بہت گہرائی سے دیکھ رہا تھا اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اس تمام صورتحال کا انجام کچھ کچھ نظر آنے لگا تھا اور پچھلا پاکستان کی تاریخ کا طویل دھرنا اور اس کا انجام بھی زہن میں گھوم رہا تھا،مجھے عمران خان کی کال پر نکلتے عوام کو دیکھ کر خوشی بھی ہورہی تھی اور دکھ بھی خوشی اس بات کی تھی کہ عوام کرپشن سے پاک اچھا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں وہ تبدیلی چاہتے ہیں ایک دھرنے کو آزمانے کے بعد بھی وہ وطن کی بھلائی کی خاطر نکل پڑے ہیں دکھ اس بات کا ہورہا تھا کہ کہیں ان کے ساتھ پھر ہاتھ نہ ہوجائے تمام مشقت، تکلیفیں ضائع نہ ہوجائیں اور عوام اسی جگہ پر کھڑے رہ جائیں جہاں پہلے ہی کھڑے تھے۔
اس تمام تر صورتحال میں شیخ رشید صاحب بھی ایک ایکشن فلم کے ہیرو کی متحرک نظر آئے جب لال حویلی کا محاصرہ کرلیا گیا تو شیخ صاحب بہت پر امید تھے کہ جس طرح انہوں نے ہر مشکل میں عمران خان کا ساتھ دیا ہے اسی طرح عمران خان بھی اس نئی صورتحال میں ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور تمام صورتحال کو شیخ صاحب نے اکیلے ہی بھگتا اور کمیٹی چوک پہنچنے کا چیلنج پورا کر کے دیکھایا،جگہ جگہ راستوں کی بندش ، آنسو گیس کی شیلنگ کے باوجود ایک چھلاوے کی طرح موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھ کر اور کچھ دیر پیدل دوڑتے ہوئے وہ عوام کے درمیان پہنچ گئے اور سوشل میڈیا پر اس طرح چھا گئے کہ لوگ نیلی آنکھوں والے چائے والے کو بھی بھول بیٹھے۔دوسری جانب انتہائی خطرناک صورتحال اس وقت پیدا ہوگئی جب خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی پرویز خٹک صاحب ایک قافلے کے ساتھ بنی گالہ کی جانب روانہ ہوگئے ان کے ساتھ ہزاروں لوگوں کے علاوہ کرینیں بھی شامل تھیں، قافلے کو اسلام آباد آنے سے روکنے کے لیئے شیلنگ کی گئی تمام راستوں کو بلاک کردیا گیا عجیب جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی ایک صوبے کے وزیراعلی پر دوسرے صوبے کی پولیس شیل برسا رہی تھی صورتحال اس قدر خطرناک ہوگئی تھی کہ پنجاب پولیس اور خیبرپختونخواہ پولیس آمنے سامنے تھیں۔
بلاآخر پانچ روز کی کشمکش اور ہیجانی کیفیت کے بعد دو نومبر آنے سے پہلے وہ کچھ ہوگیا کہ لوگ حیران رہ گئے کہ یہ ہوا کیا اکتوبر کے آخری دن مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب یہی ہونا ہے، ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں سو فیصد کامیاب ہوچکی تھی، عمران خان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ دو نومبر کو لوگوں کی کتنی تعداد اسلام آباد پہنچے گی ۔ خان صاحب نے صبح سپریم کورٹ میں ہونی والی صورتحال کو موقع غنیمت جانا اور فوری طور پر اسے اپنی کامیابی سے منسوب کرکے لاک ڈاؤن کی کال واپس لے کر اسے یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا۔
Supreme Court
اب ذرا سوچیں کہ اس تمام صورتحال میں کیا کھویا کیا پایا تو جواب شائید یہی ملے کہ سب کچھ کھویا، پاکستان آرمی کے ایک کرنل شہید ہوئے، دو کارکن ہلاک ہوئے ایک چار دن کا معصوم بچہ موت کے منہ میں چلا گیا ، پانچ دن تک ایک عام آدمی بے روزگار رہا، تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں معطل رہیں اور نتیجہ صفر رہا ، اگر بقول خان صاحب یہ مان بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ کی انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان اور وزیراعظم کا خود سمیت خاندان کے افراد کو کمیشن کے سامنے پیش کرنے پر رضامندی ہی ان کی فتح ہے تو پھر خان صاحب کو یہ فتح سات ماہ قبل ہی مل گئی تھی جب پاناما لیکس منظر عام پر آئی اور وزیر اعظم نے خود کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں بنائے گئے کمیشن سے انکوائری کرانے پر رضامند ہیں بلکہ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے کمیشن بنانے کی استدعا بھی کی تھی۔
چوہدری نثار صاحب نے صحیح کہا کہ خان صاحب کا یہ فیصلہ نہ کسی کی جیت ہے نا کسی کی ہار ان کی بات سے واضح تھا کہ نہ پی ٹی آئی کی جیت ہے نہ مسلم لیگ نون کی ہار۔ میرا بھی یہی خیال ہے یہ اگر جیت ہے تو دونوں سیاسی جماعتوں کی جیت ہے۔ خان صاحب بھی جانتے ہیں اور میاں صاحب بھی جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ دو دن میں نہیں آئے گی کوئی ہارا ہے تو وہ ہے عوام کوئی اپنی جان ہار گیا تو کوئی امید کوئی پانچ دن کی دہاڑی ہارگیا۔اب اگر کوئی مزید نئی لیکس نہیں آئیں تو اب فیصلہ 2018 کے الیکشن میں ہی ہوگا جہاں ایمپائیر عوام ہو گی۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خان صاحب ایک اچھا مشن لے کر چلتے ہیں لیکن شائید طریقہ کار مناسب نہیں ہوتا یا پیشگی منصوبہ بندی کا فقدان ہوتا ہے، جب سے خان صاحب نے اس لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا اس وقت کئی لوگوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا اختتام اس انداز میں ہوگا خود ان کے قریبی لوگوں کو بھی نہیں اندازہ تھا اس سے ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ فیصلے سے پہلے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور اس بارے میں سوچا ہی نہیں گیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ سے اس طرح کی بات کی گئی تو پھر کیا کرنا ہوگا کیوں کہ دو بنیادی مطالبات تھے کہ یا تو وزیراعظم استعفی دیں یا تلاشی دیں تو دونوں ہی مطالبات نہیں مانے گئے ابھی تو سپریم کورٹ اس پر کام شروع کررہی ہے کہ کون تلاشی لیگا اور کس کو تلاشی دی جائیگی۔
اس پورے تناظر میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ سی پیک منصوبے کے تحت چین سے 100 کنٹینروں پر مشتمل پہلا قافلہ 02 نومبر کو برہان انٹر چینج سے گذرنا تھا اور جس وقت برہان انٹر چینج میدان جنگ بنا ہوا تھا اس وقت یہ کنٹینرز سوست بارڈر پر پہنچ چکے تھے جس کے بعد صبح اگلی منزل گوادر پورٹ کے لیے روانہ ہو ناتھا، ٹرکوں کا یہ قافلہ گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا ایبٹ آباد سے حسن ابدال اور پھر موٹروے پر روانہ ہونا تھا، ایک طرف تو دھرنا اور حکومتی کنٹینرزکا تصادم تھا تو دوسری طرف یہ تجارتی قافلہ اپنی منزل کیلئے رواں دواں تھا، اس قافلے کے تصادم والے مقام پر پہنچنے سے چند گھنٹے قبل لاک ڈاو?ن اور دھرنے کا پلان منسوخ ہو گیا۔
یوم تشکر کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ مبارک ہو یہ ہماری کامیابی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کے کسی وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے کرپشن کے الزام میں طلب کیا شائید خان صاحب بھول گئے کہ انہی کے دور سیاست میں ہی سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو بھی عدالت نے اس وقت طلب کیا تھا اور وہ پیش بھی ہوئے جب وہ اس ملک کے وزیر اعظم تھے۔