کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا، لیکن تین ہفتے گذر جانے کے باوجو،د ہ ثمرات سامنے نہیں آئے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ سندھ کرونا کے بڑھتے پھیلاؤ پر انتہائی پریشان نظر آئے۔ صوبائی حکومت نے جب لاک ڈاؤ ن کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت ہی ان خدشات نے جنم لے لیا تھا کہ وفاق و عوام کے عدم تعاون کے باعث اسٹریجی کے کامیابی کے امکان کم ہوں گے۔
بدقسمتی سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا تقابل یورپ و امریکا جیسے ممالک سے کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ مشرق و مغرب میں سماج کے فرق کی طرح اقدار و روایات بھی مختلف ہیں۔صوبائی حکومتیں اب مختلف یونین کونسلز کو سیل کررہی ہیں، کچھ شہری علاقے سیل کئے جاچکے، لیکن اب بھی زمینی حقائق کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جس کا بار بار اظہار کیا گیا۔ مارکیٹ، ٹرانسپورٹ بند کرنے باوجود کرونا کی وبا کو قابو اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا تھا، جب تک عوام اپنے گھروں میں موجود نہ رہیں۔کرونا کا ؒخاموش بم اس وقت مکمل طورپھٹ چکا ہے، 8 ہفتوں میں کرونا انسانی جسم میں پوری طرح جگہ بنا چکا، نیز ٹیسٹ اُس حساب سے بھی نہیں ہوئے جو حالات کے متقاضی تھے، اس باعث کرونا متاثرین کی حقیقی تعداد سامنے نہیں آرہی۔ جو تعداد بھی سامنے آرہی ہے وہ کرونا کے ایسے شدید متاثرین ہیں، جن کو ایمرجنسی طبی علاج کی ضرورت ہے۔
لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ صائب تھا لیکن اس اَمر پر غور و فکر میں تمام اندازے غلط ثابت ہوئے کہ عوام تعاون کریں گے۔ پہلے ہفتے میں ہی ارباب اختیار کو علم ہوچکا تھا کہ عوام احتیاط نہیں برت رہے، کچی آبادیوں میں کرونا وبا پھیلنے کی شدید خطرات تھے، اس پرراقم نے اظہاریہ لکھا، جیسے بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی تسلیم کرلیا۔ بدقسمتی سے کچی آبادیوں میں لاک ڈاؤن کو لاگو کرنے میں غیر محتاط رویہ اختیار کیا گیا۔ گلی کوچوں، میدانوں شاہراؤں میں کھیل کود، ہجوم و اجتماعات سے مسلسل خلاف وزری ہوتی رہی۔ محنت کش طبقہ بدترین مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا۔ ضرورت اس اَمر کی تھی کہ پہلے بین الصوبائی سرحد سیل کردی جاتی، اس کے بعد اضلاع کی مناسبت سے لاک شدہ علاقوں کے مستحقین کو گھر گھر راشن پہنچایا جاتا اور پھر سختی کے ساتھقانون پر عمل درآمدکروا جاتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ لاک ڈاؤ ن میں صرف چھوٹے بڑے بازار، دکانیں اورعوامی ٹرانسپورٹ بند ہوئی اور بس۔۔۔
کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور ڈر ہے کہ پہلے سے کمزور صحت کا نظام بیٹھ گیا تو انتہائی خطرناک ہوگا۔تشویش ناک صورتحال یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ میڈیکل اسٹاف بھی کرونا وائرس کا شکار ہورہا ہے عوام میں فرسٹریشن اور بے یقینی ڈیرے ڈال چکے۔ اگربین ا لصوبائی سرحدوں کے ساتھ مملکت کی سرحدیں بھی سیل کرکے بیرون ملک پاکستانیوں کی آمد زمینی و فضائی راستوں سے روک دیا جاتی تو اس وقت پاکستان میں بدترین ہنگامی حالات نہ ہوتے۔ وفاق کو صرف ایک سخت فیصلہ لینا تھا کہ جس طرح چین سے پاکستانی نہیں لائے گئے، صرف ایک مہینہ کے لئے زائرین اور وزٹ پر جانے والے شہریوں کے علاوہ تارکین وطن کے لئے بیرون ملک سفارتخانوں و قونصل خانوں کی مدد سے قرنطینہ بنا کر تعاون فراہم کرتے، اس وقت جتنے اخراجات ریاست کررہی ہے اگر اُس کا ایک پانچ فیصد بھی بیرون ملک اقدامات خرچ کردیا جاتا تو اِس وقت وطن عزیز میں افراتفری و بے یقینی کی فضا نہیں ہوتی بلکہ دنیا بھر کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی صنعتیں و محنت کش دن رات کام کررہے ہوتے، راشن و امداد لینے کے لئے لائنوں میں کھڑے نہ ہوتے۔
بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو روکنے کا فیصلہ سخت و غیر مقبول ہوتا، لیکن جو صورتحال اُس وقت دنیا بھر میں برپا ہورہی تھی، تمام ائیر پورٹس کو سیل کردینا چاہیے تھا،پاک فوج کو شہروں میں بلانے کے بجائے زمینی سرحدوں پر ریڈ الرٹ کراکے کسی بھی قسم کی نقل وحرکت کو روک دیا جاتا، ایران نے پاکستانی زائرین کی ذمے داری اٹھانے سے انکار کیا اور حکومت کو انہیں واپس لانا مجبوری بن گیا تھا، لیکن صرف ایک مہینہ انہیں داخل ہونے سے روک دیا جاتا اور عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے مناسب اقدامات کرلئے جاتے تو عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں ہوتا۔ وفاق کا شروع سے موقف رہا کہ مکمل ؒلاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوگا، تو وہ تو ہونا ہی تھا، وفاق نے اعلان نہیں کیا پھر بھی کارخانے بند، نجی و سرکاری ادارے بند، ٹرانسپورٹ بند، دکانیں بند، ٹھیلے پتھارے بند، عوامی مقامات بند تو اس کے بعد دیہاڑی دار طبقہ ہی نہیں، بلکہ تمام طبقات کا متاثر ہونا یقینی تھا اور ایسا ہی ہوا۔اب اگر پورے ملک میں کرفیو بھی لگا دیا جائے تب بھی کرونا جو اس وقت لاکھوں انسانوں میں جگہ بنا چکا ہے، اس کے خطرناک اثرا ت نمودار ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔
حکومت کی ترجیحات اس وقت آنے والے طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے پر مبذول ہونی چاہیے، کیونکہ جس طرح وفاق و عوام نے لاک ڈاؤن کو سنجیدہ نہیں لیا تو خدشہ ہے کہ راشن و ریلیف اسکیموں میں اجتماعات میں لاپرواہی و بے انتظامی سے کرونا وائرس مقامی طبقے کو مزید متاثر کرے گا۔ دوسری جانب حکومت کی ساری توجہ شہری علاقوں کی جانب رہی، دیہی علاقوں میں کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے، جس کی وجہ سے دیہی و شہری علاقوں میں کرونا، اب کیا قیامت ڈھاتا ہے، اس پر رب عزوجل سے رحم کی طلب ہی کی جاسکتی ہے۔ ل
اک ڈاؤن میں توسیع کا کوئی موثر فائدہ نہیں کیونکہ عوام میں شعوری ناپختگی و بے پرواہی سے معاملہ گھمبیر و گنجلگ بن چکا۔ بے انتظامی و تاخیری فیصلوں نے مملکت کو اس وقت بدترین بحران پر لا کھڑا کیا، اس وقت لیکر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں،کیونکہ کمان سے تو ”تیر“ نکل چکا۔تاہم حکومت اب بھی، اس وقت کم ازکم اتنا کرسکتی ہے کہ اُن علاقوں میں لاک ڈاؤن نہیں بلکہ کرفیو لگا دیا جائے جہاں کرونا مریضوں کی موجودگی ظاہر ہوچکی،ان علاقوں میں گھر گھر کرونا کے متاثرین کو تلاش کیا جائے، اس طرح نگرانی بھی رہے گی اور کرفیو کی کوئی خلاف ورزی بھی نہیں کرے گا۔ضروریات زندگی کی بنیادی اشیا گھر گھر پہنچائی جائیں تاکہ کرفیو کی خلاف ورزیوں سے نیا بحران سر نہ اٹھا سکے، ایسا نہ ہو کہ یہ بحرا ن کرونا کے اختتام کے بجائے کسی حکومت کے خاتمے کا باعث بن جائے۔