چین (اصل میڈیا ڈیسک) سنکیانگ کا لاک ڈاؤن ایک وسیع نگرانی کے تحت مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ اس سے سنکیانگ کا علاقہ ایک ’ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن کر رہ گیا ہے۔
چین کے دور افتادہ شمال مغربی حصے سنکیانگ میں حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے خوفناک قسم کے اقدامات کا سہارا لے رہی ہے۔ مقامی باشندوں کو مقید کرنا، چالیس روز سے زائد قرنطینہ میں رکھنا اور ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے والوں کو گرفتار کرنا جیسے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں چینی حکام دیگر نامناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق رہائشیوں کو روایتی چینی طبی طریقوں سے تیار کردہ ادویات زبردستی لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں سنکیانگ کے قرنطینہ میں موجود تین افراد کے انٹرویوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے۔ روایتی چینی ادویات کے کورونا وائرس کے خلاف کار آمد ہونے سے متعلق جامع اور مستند ‘کلینیکل ڈیٹا‘ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ چینی روایتی طبی نسخے سے تیار کردہ ایک ‘ملٹی کمپوننٹ ہربل فارمولا‘ Qingfei میں ایسی اجزاء شامل ہیں جن پر جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور امریکا میں پابندی عائد ہے۔
سنکیانگ میں تازہ ترین لاک ڈاؤن نہایت خوفناک شکل کے ساتھ اب اپنے 45 ویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔ دراصل اس کا اطلاق جولائی کے وسط میں کورونا کے 826 نئے کیسز کے سامنے آنے کے بعد ہوا تھا۔ گزشتہ سال مہلک کورونا وائرس کی وبا کے چین میں پھوٹنے کے بعد سے سنکیانگ کے علاقے میں یہ کورونا کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم سنکیانگ کے لاک ڈاؤن پر زیادہ تنقید اس لیے ہو رہی ہے کہ اس کی شدت بہت زیادہ ہے اور اس لیے بھی کیونکہ سنکیانگ کے علاقے میں کورونا وائرس کے مقامی ٹرانسمیشن یا منتقلی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا آغاز جہاں سے ہوا اور جہاں سب سے پہلے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی وہ تھا صوبہ ہوبے اور اس کا شہر ووہان۔ صرف شہر ووہان میں 55 ہزار کیسز سامنے آئے جبکہ صوبے ہوبے میں ان کی کُل تعداد 68 ہزار رہی۔ یہ تعداد سنکیانگ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہوُبے کے رہائشیوں کے ساتھ نہ تو روایتی چینی ادویات نگلنے کے لیے زور زبردستی کی گئی نہ ہی انہیں اشیائے خورد و نوش کی خریداری اور ورزش وغیرہ کے لیے اپنے رہائشی کے احاطے سے باہر جانے پر کسی قسم کی پابندی کا سامنا رہا۔ اسی طرح بیجنگ، جہاں جون کے اوائل میں 300 کورونا کیسز سامنے آئے تھے، میں محض چند محلوں کو چند ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔
سنکیانگ کی 25 ملین کی آبادی کا نصف حصہ لاک ڈاؤن میں ہے۔ ریاستی میڈیا کی رپورٹس اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے جائزے کے مطابق سنکیانگ کے دارالحکومت اُرومچی، جو کورونا کا مرکز ہے سے کئی سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں لاک ڈاؤن کی پابندیاں عائد ہیں۔ یہاں تک کہ ووہان اور چین کے بقیہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ چُکی ہے۔ سنکیانگ کا لاک ڈاؤن ایک وسیع نگرانی کے تحت مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ اس سے سنکیانگ کا علاقہ ایک ‘ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن کر رہ گیا ہے۔
گزشتہ تین سالوں کے عرصے میں سنکیانگ کے حکام ایک ملین یا اس سے بھی زائد ایغور، قازق اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو مختلف اقسام کے حراستی مراکز، جن میں ماورائے عدالت حراست میں رکھے جانے کے لیے قائم کیمپس بھی شامل ہیں، سکیورٹی کے وسیع کریک ڈاؤن کے تحت رکھا گیا ہے۔
امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے ایک محقق ڈیرن بائلر کے بقول، ”سنکیانگ ایک پولیس ریاست بن چکی ہے۔ بنیادی طور پر وہاں مارشل لاء ہے۔‘‘ ریسرچر بائلر نے مزید کہا، ”وہ سمجھتے ہیں کہ ایغور باشندے اپنی حفاظت اور قرنطینہ سے متعلق احکامات کی خود سے پیروی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘
رواں سال مارچ کے مہینے میں عالمی ادارہ صحت نے نے کہا تھا کہ جڑی بوٹیوں سے وائرس کا علاج مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ یہ نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ اس کے جواب میں بیجنگ حکومت کی طرف سے مئی میں ایک مسودہ قانون متعارف کرایا جس کے تحت روایتی چینی طب کے تحت تیار کردہ جڑی بوٹیوں پر مشتمل ادویات کو بدنام کرنا جرم قرار دیا جائے گا۔ اب چینی حکومت چینی روایتی ادویات کے استعمال پر زور دے رہی ہے اور کووڈ انیس کے خلاف چین کی بنی جڑی بوٹیوں سے ادویات بنانے والے چینی ماہرین کو بیرون ملک بھیج رہی ہے۔ ان ممالک میں ایران، اٹلی اور فلپائن شامل ہیں۔