لاک ڈاؤن یا سماجی فاصلہ: گھریلو خواتین ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں

Women

Women

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) اس دوران کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے مگر یہ صورتحال خواتین کے لیے خاص طور پر شدید ذہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ بن چکی ہے۔

”مجھے لگ رہا ہے کہ ہوا میں کرونا کا وائرس بس گیا ہے۔ سانس لیتے بھی اب تو ڈر لگ رہا ہے۔ یہ سب قرب قیامت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہیں؟‘‘

”میں تو بچوں کو صحن میں بھی نکلنے نہیں دے رہی۔ اگر ان بچوں میں سے کسی ایک کو بھی کورونا ہو گیا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی۔‘‘

”میرے شوہر بینک ملازم ہیں اور ان کو چھٹی نہیں ملی ہے۔ یہ جب بھی گھر سے نکلتے ہیں میرا پریشانی سے دم نکلا رہتا ہے۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو میرے بچوں کا کیا ہو گا؟‘‘

یہ وہ چند جملے ہیں جو شہروں کے لاک ڈاؤن کے بعد سے اکثر خواتین سے سننے کو مل رہے ہیں۔ خود ساختہ تنہائی یا سماجی دوری اختیار کرنے والے تقریباً تمام ہی گھرانوں میں اس وقت لوگ شدید ذہنی تناؤ اور کوفت میں مبتلا ہیں۔ جہاں گھر کے مردوں کو مالی خدشات گھیرے ہوئے ہیں وہیں خواتین بھی ایسے ماحول کا تناؤ شدت سے محسوس کر رہی ہیں۔

کراچی کے ایک متوسط علاقے میں مقیم خاتون زہرا جمال کے بقول وہ مردوں اور بچوں کے سارا وقت گھر پر موجود ہونے پر شدید پریشان ہیں، ”گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے آنے والی ماسیوں کو تو چھٹی دے دی ہے۔ گھر اور کچن کے کاموں سے فرصت ملتی ہے تو بچوں کو زبردستی پڑھانے کے لیے ان کے ساتھ لگنا پڑتا ہے۔ بچے بھی گھر میں اب شدید بور ہو رہے ہیں۔ آخر کتنا پڑھیں یا کتنا کھیلیں ؟ پھر شوہر سمیت گھر کے تمام مرد بھی گھر پر ہوتے ہیں تو یا تو فرمائشی کھانوں کا سلسلہ لگا کر رکھتے ہیں یا پھر ٹی وی پر خبریں دیکھ کر ان پر تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ مجھے ایک لمحہ کچھ سوچنے سمجھنے کا نہیں مل رہا۔ نہ جانے یہ صورتحال کب تک رہے گی۔‘‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ناز کہتی ہیں کہ شدید ذہنی تناؤ جہاں شدید ڈپریشن کا باعث بنتا ہے وہیں کئی دیگر طرح کی ذہنی و جسمانی پریشانیاں اجاگر ہو جاتی ہیں، خاص طور سے ایسی صورت میں جب کوئی وبا عام ہو۔

دنیا کے تقریباً تمام ہی ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی قدرتی آفت ہو یا وبائی امراض کا حملہ، ذہنی صحت کے لیے یہ صورتحال ایک دھچکے سے کم نہیں ہوتی۔ خصوصاً ایسی صورتحال جس میں بچاؤ صرف سیلف آئسولیشن یا خود ساختہ تنہائی ہو، کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ اس وقت اس طرح کی صورتحال سے تقریباً دنیا کے تمام ہی ممالک کے افراد دوچار ہیں۔ اسی تناظر میں عالمی ادارہ صحت نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران ذہنی حالت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لیے چند ایسی سفارشات بھی پیش کی ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسی حد تک ذہنی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

کراچی کے ایک نجی کلینک سے منسلک ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ناز کہتی ہیں کہ شدید ذہنی تناؤ جہاں شدید ڈپریشن کا باعث بنتا ہے وہیں کئی دیگر طرح کی ذہنی و جسمانی پریشانیاں اجاگر ہو جاتی ہیں، خاص طور سے ایسی صورت میں جب کوئی وبا عام ہو، ”خود کو یا اپنے پیاروں کو بیماری لاحق ہونے کا شدید خوف، نیند اور کھانے کے انداز وطریقے میں تبدیلی، یکسوئی اور نیند میں مشکلات، کسی دائمی مرض میں شدت آنا ایسے چند مسائل ہیں جس کا سامنا اس وقت لازمی طور پر کئی افراد کر رہے ہیں۔‘‘

ایسی ہی صورتحال سے شاہدہ اختر بھی دوچار ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنی شدید پریشانی کا اظہار کیا کہ وہ خبروں اور نیٹ پر اس وبا کی خبروں سے انتہائی خوفزدہ ہوگئی ہیں۔ ان کے خیال میں بس یہ آخری وقتوں کی نشانیاں ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ خوف ان پر اتنا زیادہ اثر انداز ہوا ہے کہ وہ دن کا زیادہ تر حصہ جائے نماز پر گزار رہی ہیں: ”بس اب تو دنیا ختم ہونے والی ہے۔ مجھ سے تو جائے نماز سے ہلا بھی نہیں جاتا۔ مجھ سے اب کوئی کام نہیں ہو رہا۔ اب کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں۔ سب فانی ہے۔ بس اب وقت آگیا ہے ہم سب کا۔ پتہ نہیں کس کی آہ عرش تک پہنچ گئی۔‘‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح ناز کے بقول اس صورتحال میں میڈیا کی طرف سے مسلسل دی جانے والی جھوٹی سچی خبریں بھی لوگوں اور خواتین میں ہیجانی کیفیت کی وجہ بن رہی ہیں: ”اس وقت خواتین ذمہ داریوں کا بوجھ تو اٹھائے ہوئے ہیں تاہم ہر طرح کی سچی جھوٹی خبریں، گھریلو ماحول میں تناؤ، بچوں کے مستقبل کی طرف سے پریشانیوں اور ممکنہ مالی مسائل جسے بوجھ کا سامنا کرنے جیسے کئی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ خواتین کو اس ذہنی اذیت سے نکلنے اور انہیں نکالنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔‘‘

لاک ڈاؤن کی اس صورتحال میں خواتین کے لیے چند مفید مشورے

– جسمانی اور دماغی صحت ایک دوسرے سے مربوط ہیں لہذا اپنے معمولات میں جسمانی ورزش بھی شامل کریں۔

– صرف ٹی وی یا کمپیوٹر اسکرین سے جڑ کر مت بیٹھیں، مختلف سرگرمیاں اپنائیں۔

– جسمانی فاصلے کے باوجود آپ ای میل، سوشل میڈیا، ویڈیو کانفرنس اور ٹیلیفون کے ذریعے لوگوں سے جڑے رہیں۔

– خبروں سے جتنا ممکن ہو دور رہیں۔

– ایسی چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں اپنائیں جن سے کچھ حاصل کر لینے کا احساس پیدا ہو۔