گھروں میں خود کو قید کر لو اور باہر سے تالا لگا لو ،کیونکہ زمانہ ایسا ہے کہ کوئی آئے گا اور تجھے زندگی کی قید سے بھی آزاد کر دے گا۔
سوچ کی لہروں کو بند کردو ان پر ایسا تالا لگا دو کہ وہ لہریں باہر کھڑے پہرے داروں سے نہ ٹکرائیں اگر ٹاکرا ہو گیا تو آپ کے حق میں برا ہو گا اور وہ بڑا بھیانک ہو گا۔
زبان میں مچلتے گستاخانہ سوالات کو جنم لینے سے قبل ہی قتل کرڈالو ،اگر وہ باہر نکلے تو کہرام مچنے سے قبل تیری زندگی کا جنازہ اٹھے گا اور تو کف افسوس بھی نہیں مل پائے گا۔
لبوں کو سی دو بلکہ ان پہ مضبوط قسم کا تالا لگا لو ،اگر لب وا ہو گئے تو پھر طوفان برپا ہونے سے قبل ہی تیرے گھر میں تیرا ہی ماتم برپا ہوگا اور تو اس وقت کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔
عقل اور دماغ کے باہمی سوالات و جوابات کو یہی فریز کردو نہیں تو کسی کو ان کی بابت ذرا سی بھنک بھی پڑی تو پھر یہ سیشن کبھی بھی نہیں ہو پائے گا۔
یہ خامشی کا زمانہ ہے ،اس دیس میں چپ رہو ،سب جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی اداکاری کرتے رہو ، کیونکہ خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے ۔ اور ہاں زندگی کے طور و اطوار بدل دو ،ڈنڈے کا قانون ہے ،جدھر وہ ہانکیں ،بلا چون و چرا آنکھیں بند کیے بغیر لبوں کو وا کیے ان کے احکامات کی تعمیل کرو۔ بلکہ ایسے بن جاؤ ،جیسے کوئی ریموٹ ہوتا ہے ،جذبات و احساسات سے عاری ،جس کو جیسی کمانڈ دی جائے وہی کرتا ہے تم بھی ریموٹ بن جاؤ اگر زندگی عزیز ہے ۔
اگر زندگی جینا چاہتے ہو تو پھر دور چلے جاؤ ،اتنا دور کہ جہاں کا نظام عدل کا ہو ،جہاں کسی بات کی پابندی نہ ہو ،جہاں جینے کی آزادی ہو اور سوال پوچھنے پر کوئی قدغن نہ لگتی ہو۔
اگر زندگی گزارنی ہے تو پھر سانس گنتے رہو ،وقت بتاتے رہو ،صبح و شام گریہ و زاری کرتے رہو ،گھٹ گھٹ کر موت کا انتظار کرو اور انتظار جتنا بھی ہو طویل ہوتا ہے ، انتظار کی بے جا طوالت سے تو بہتر ہے کہ شکنجے توڑ ڈالو،تالے کھول دو ،سوچ کی لہروں کو آزاد کردو ،زبان میں مچلتے سوالات کو دنیا کے سامنے پیش کردو ،لبوں کو وا کر کے بتا دو کہ ہمارے عقل و دماغ کے بیچ کون سے سوال جنم لے رہے ہیں ؟؟؟
ہمیں ان کے جوابات چاہئیں ،اور معلوم ہے آپ کا جواب بڑا مشکل مگر اس زندگی سے اچھا ہو گا کیونکہ زندگی کا زنگ آلود پہیہ ہم سے اب مزید نہیں گھسیٹا جاتا سو ہمیں سوال پوچھنے کی پاداش میں جواباََ موت دے دو ،ہم راضی خوشی اسے گلے لگائیں گے۔