تحریر : انجینئر افتخار چودھری ادھوری ملاقات کی طرح بھائی صاحب ادھوری بات کر کے چلے گئے۔ بڑا آسان ہوتا ہے کسی کو وٹہ مار کے بھاگ جانا۔میں ان کی بات کا جواب نہ دیتا لیکن یہ صاحب جو خبریں کے مستقل کالم نگار ہیں ان کی بات سن کر دلی دکھ ہی نہیں ہوا دلی صدمہ پہنچا ہے۔اس طرح تو روٹھ جانے والے پھوپھی بھی طعنے نہیں دیتی جس طرح خضر کلاسرہ نے بے نقط سنائیں وہ کیا کہا پروین شاکر نے دیوار کیا گری میرے کچھ مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے یعنی تجزیہ کاری سے زیادہ بخیئے ادھیڑ دئے گئے کاش یہ قسور مرزا کا کل کا کالم پڑھ لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ کہ الیکشن کی ہار کی بنیادی وجہ کیا تھی۔نہ تو وہاں نون کا بیانیہ کامیاب ہوا اور نہ ہی جنون کے نئے پاکستان کا چن چڑھا۔سیاست کے طالب علم کی حیثت سے چند باتیں خبریں کے معزز قارئین کے سامنے رکھنے کی اس لئے کوشش کروں گا کہ خبریں جنوبی پنجاب کا سرخیل اخبار ہے وہاں صبح صبح لوگ خبریں پڑھتے ہیں بلکہ مجھے میرے دوست وہاں سے فون کر کے بتاتے ہیں کہ خبریں ہی پڑھتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ اس اخبار کے پڑھنے والے دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں اس حد تک اہم اخبار ہے کہ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا جیسے دکم پورٹ کی سٹوری بریک ہوئی اور ستلج بیاس کے پانیوں کا معاملہ اٹھا ماضی میں مختاراں مائی بھی اسی اخبار کے ذریعے سامنے آئی۔میں وہ شخص ہوں جس کا اخبار سے کوئی ربع صدی کا تعلق رہا چیف صاحب کے اپنے مزاج ہیں ان کی ناراضگی بھی ہم اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے ناراض ہیں ایک شفیق بھائی کی ناراضگی۔کالم چھپے نہ چھپے اب جو لکھا جاتا ہے اسے ویب سائٹوں کے پروں پر چڑھا کر بات تو کی جا سکتی ہے۔جناب کلاسرہ صاحب جہانگیر ترین سے کوئی ذاتی پر خاش ہے جو اس قدر تیز و تند کالم لکھ ڈالا۔مانا کہ ترین عدالت سے نا اہل ہو گئے مگر اتنے بھی نا اہل نہیں کہ وہ لودھراں جیسے پسماندہ علاقے کو بھول جائیں ان کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اسلام آباد سے ٹکٹ لینا کیا مشکل تھا ویسے بھی اسد عمر کون سے اسلام آبادی ہیں ۔لیکن انہوں نے اپنے علاقے کی کو ترجیح دی ۔میں لودھراں گیا نہیں لیکن مجھے یہ علم ہے کہ وہاں کی ترقی میں ترین فیملی کا ہاتھ ہے۔انہوں نے نادار خواتین کے لئے ایسے ادارے بنائے ہیں جہاں سے کام سیکھ کر وہ روزگار حاصل کر رہی ہیں۔
ان کی یہ خواہش کہ ان کا بیٹا اسمبلی میں پہنچے یہ ہر اس باپ کی خواش ہے جس نے کسی بھی پارٹی ادارے کے لئے تن من دھن قربان کیا ہو۔آپ کا یہ بیانیہ کسی بھی زاویے سے دیکھا جائے تو مناسب نہیں لگتا کہ انہوں نے موروثیت کی سیاست کی ہے موروثیت تو تب ہوتی وہ خالی ہونے والی سیکرٹری شپ کی سیٹ بیٹے کو دے دیتے۔سچ پر دھند چھائی ہوئی ہے اور اس دھند کا سب سے بڑا حصہ وہ ہیلی کاپٹر ہے جو پاکستان کے لوگوں کے لئے نفرت کا استعارہ بنا دیا گیا ہے۔مخالفین کی یہ خواہش رہی ہے کہ تحریک انصاف کو ٹھبی ماری جائے ٹھبی ایک ایسا دائو ہے جس میں مخالف پہلوان کی اس ٹانگ پر ضرب لگائی جاتی ہے جس سے وہ لڑکھڑا کر گر جائے پی ٹی آئی کی ٹانگوں پر یہ دائو پیچ استعمال کئے جا رہے ہیں ۔نون غنے یہ جانتے ہیں کہ کہ تحریک انصاف کے لئے جہانگیر ترین اور علیم خان ایسے لوگ ہیں جو اپنی اس کمائی سے جو انہوں نے محنت سے کمائی ریاست کو ٹیکس دینے کے بعد پارٹی پر صرف کرتے ہیں۔
خضر کلاسرہ صاحب زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ نواز شریف کی پارٹی پر کون خرچ کرتا ہے اور تو اور یہ بھی سن لیجئے کہ موصوف کے عمرے کے اخراجات بھی کوئی اور لوگ دیتے ہیں جو دیتے ہیں۔مکہ ہوٹل جدہ شرفیہ والے سے کھابے بھی مفت میں اڑتے رہے ہیں یہ تو معمولی باتیں جو میرے تجربے میں آئی ہیں۔لوگوں کے شوق ہوتے ہیں لوگ کماتے ہیں اور سیاست میں آتے ہیں اس لئے کہ وہ جانے جائیں کوئی ملک اور قوم کے لئے کر سکیں۔پیسہ تو اس ملک میں بے شمار لوگوں کے پاس ہے ایک صرف مانسہرہ میں ایک شخص کے پاس ہیلی ہے کسی کے پاس جہاز ہے پاکستان میں ہزاروں کے پاس لینڈ کروزریں ہیں دس لینڈ کروزر کی قیمت میں ایک ہیلی مل جاتا ہے لوگو لیز پر لیتے ہیں ۔لیکن کوئی ملک ریاض اور سلیم گجر کے جہازوں کی بات نہیں کرتا کوئی چودھری نفیس کے فلیٹ کی بات نہیں کرتا عمران چودھری بھی جہازوں والا ہے فیصل زمان جہازوں والا کے نام سے اسمبلی میں بیٹھا ہے صرف جہانگیر ترین کے جہاز کا شور کیوں ۔اس لئے کہ وہ عمران خان کا ساتھی ہے۔آپ لوگوں نے پاکستان کے غریب اور پسماندہ طبقے کو نفرت میں مبتلا کر رکھا ہے اس طبقاتی تقسیم کا فتنہ بھٹو نے بھی اٹھایا تھا غریب اور امیر کی جنگ۔حضور نواز شریف کے بچوں اور ترین کے بچے کا تقابل معنی ہی نہیں رکھتا ایک کے بچے ملکی دولت کو لوٹنے کا مزہ لے رہے ہیں دوسرا وہ ہے جس کے باپ نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ ہم کالم نویس اپنے ہی کالم کو بار بار پڑھتے ہیں کسی اور کو نہیں دیکھتے ۔کل کا قسور مرزا کا کالم پڑھیں جو میں نے پارٹی پالیسی میکرز کے گروپ میں بھی شیئر کیا ہے اور تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا ہے کہ وہ اسے دیکھے۔
لودھراں کی شکست مقامی گروہ بندی کی وجہ سے ہوئی ہے۔وہ لوگ جو صدیق بلوچ کو جتوانے میں کامیاب ہوئے تھے وہی لوگ اسے ہروانے میں بھی کامیاب ہوئے انہوں نے ہی ترین کو جتوایا اور اب بھی انہوں نے ہی علی ترین کو شکست دلوائی ۔٢٠١٣ میں کانجو گروپ جیتا تھا اب بھی وہی جیتا ہے یہ الگ بات ہے وہ اس وقت آزاد جیتے بعد میں پی ٹی آئی کو جتوا گئے۔کچھ لوگ گنا گنا کر رہے ہیں کہ جو دو ملیں میاں برادران کی ہیں ان کی بندش کی وجہ سے کسانوں کو سخت تکلیف ہوئی اور وہ اجڑ کے رہ گئے۔
اب مجھے بتائیے اس میں نواز شریف کا مجھے کیوں نکالا؟بیانیہ کیسے کامیاب ہو گیا۔ہاں میں اس بات کا قائل ہوں کہ علی ترین کی جگہ اس گروپ میں سے کسی کو آگے کیا جاتا اور علی ترین کی سیاست کا آغاز شکست نہ ہوتا لیکن کوئی بات نہیں چودھری نثار علی خان بھی تو ڈسٹرکٹ کونسل میں ہارے تھے جو دھاندلی سے بعد میں جیت گئے۔حد ذات سے باہر ہوکر سوچنا بھی ضروری ہوتا ہے۔اس میں دو رائے ہیں کوئی کہتا ہے اس کی کیا گارنٹی تھی لیکن اوپر کئے گئے تجزئے کی رو سے پی ٹی آئی علی ترین کی بجائے کسی دوسرے فرد کی شکل میں یہ سیٹ جیت سکتی تھی۔اس شکست کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ پی ٹی آئی کے پاس مستقبل قریب میں حمزہ شہباز شریف کا توڑ علی ترین کی شکل میں آ گیا ہے اور میری رائے ہے ٢٠١٨ میں علی ترین پنجاب اسمبلی میںآئے۔لودھراں کے سیاسی آسمان کے اس چن کو ہم چڑھتا دیکھ رہے ہیں۔جناب خضر کلاسرہ صاحب تجزیہ کاری اور فنکاری میں فرق ہونا چاہئے۔