رسد میں کمی کے باوجود روئی کی قیمتیں برقرار

Cotton

Cotton

کراچی (جیوڈیسک) کاٹن جنرز ایسو سی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے پیداوری اعدادوشمار جس میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے 18سال کی کم ترین سطح تک گرنے کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں، کے باوجود ٹیکسٹائل ملز نے گزشتہ ہفتے کے دوران بھی روئی خریداری میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی بڑی وجہ ٹیکسٹائل ملز کو گیس کی مکمل معطلی کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے دیرینہ مطالبات کی ابھی تک منظوری نہ ہونا ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرزفورم احسان الحق نے بتایا کہ جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق کاٹن ایئر 2015-16کے دوران پاکستان میںکپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے 18 سال کی کم ترین سطح تک پہنچنے کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیںاورغیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ 43فیصد کمی پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں غیر معمولی کمی کا بڑا سبب بن گئی ہے لیکن توانائی کے بحران کے باعث کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں غیر معمولی کمی کے باوجود ٹیکسٹائل ملز مالکان کی روئی خریداری میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 15 دسمبر تک پاکستان بھر کی جننگ فیکٹریوں میں مجموعی طور پر 90لاکھ34بیلز کے برابر پھٹی پہنچی ہے جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں32فیصد کم ہے جب کہ پندرہ دسمبر تک پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں صرف54لاکھ بیلز کے برابر پھٹی پہنچی ہے جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ریکارڈ43فیصد کم ہے جبکہ سندھ کی جننگ فیکٹریوں میں اس عرصے کے دوران 36 لاکھ 35ہزار بیلز کے برابر پھٹی پہنچی ہے جو کہ پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں صرف4فیصد کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی بڑی وجہ غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پنجاب میں کپاس کی کاشت فروری کے بجائے مارچ/اپریل میں شروع ہونے سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار دوبارہ بہتر ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بجلی اور گیس کے بحران کے باعث بعض ٹیکسٹائل ملز بند ہونے اور بیشتر ٹیکسٹائل ملز پوری پیداوی صلاحیت کے مطابق آپریشنل نہ ہونے کے باعث ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی خریداری میں بھی ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے اور اطلاعات کے مطابق 15دسمبر تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے 68لاکھ12ہزار بیلز خریدی ہیں جبکہ 15دسمبر2014 تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے ایک کروڑ6لاکھ بیلز خریدی تھیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باعث پاکستان بھر میں جننگ فیکٹریاں بھی قبل از وقت بند ہونا شروع ہو گئی ہیں اور پنجاب میں اس وقت صرف 406 اور سندھ میں 174 جننگ فیکٹریاں آپریشنل ہیں جبکہ پندرہ دسمبر 2014 کو پنجاب میں837اور سندھ میں 245 جننگ فیکٹریاں آپریشنل تھیں۔انہوں نے بتایا کہ رواں سال پاکستان میں کپاس کی کل پیداوار ایک کروڑ بیلز متوقع ہے جو 1997 کے بعد پاکستان میں کپاس کی کم ترین پیداوار ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیو یارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.60سینٹ فی پاؤنڈ کمی کے بعد69.65سینٹ فی پاؤنڈ،مارچ ڈلیوری روئی کے سودے0.03سینٹ فی پاؤنڈ کمی کے بعد 63.69سینٹ فی پاؤنڈ، چین میں روئی کے سودے 80یوآن فی ٹن اضافے کے ساتھ 12 ہزار10یوآن فی ٹن، بھارت میں روئی کے سودے 963 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 32 ہزار 800روپے فی کینڈی تک مستحکم رہے جبکہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے اسپاٹ ریٹ بغیر کسی تبدیلی کے 5ہزار 250روپے فی من تک مستحکم رہے۔ احسان الحق نے بتایا کہ یو ایس ڈی اے کے مطابق جولائی 2016 کو ختم ہونے والے انٹرنیشنل کاٹن ائرتک تاریخ میں پہلی مرتبہ بنگلہ دیش کو دنیا کے سب سے بڑے کاٹن امپورٹر ملک کا درجہ مل جائے گا۔

یو ایس ڈی اے کے مطابق جولائی 2016 تک بنگلہ دیش ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 5.75 ملین روئی کی بیلز (480پاؤنڈ) درآمد کرے گا جبکہ چین کی جانب سے 5.50ملین بیلز درآمد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے جو 2003 کے بعد چین کی سب سے کم کاٹن امپورٹس ہوں گی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بنگلہ دیش دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے 1995 کے مقابلے میں2012 تک اپنی کاٹن ایکسپورٹس میں 100گنا اضافہ کیا ہے جس کی بڑی وجہ وہاں بہترین حکومتی پالیسیاں اور برآمد کنندگان کو بہترین سہولتوں کی دستیابی ہے۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں کپاس کی پیداوار صفر ہے لیکن اس کے باوجود اس کی کاٹن ایکسپورٹس پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔