لندن، بھارتی مظالم کیخلاف مظاہرہ اور برطانوی میڈیا کا تعصب

London Kashmir Protest

London Kashmir Protest

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

پندرہ اگست کو لندن میں بھارتی ایمبیسی کے سامنے کوئی لگ بھگ پندرہ ہزار سے زائد افراد نے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت یعنی آرٹیکل 370 ختم کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔کشمیریوں کی حق خود ارادیت،آزادی اور شناخت جو ان کا فطری اور پیدائشی حق ہے کو قائم اور بحال رکھنے کے لئے بر طانیہ بھر کے مختلف شہروں سے پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کے افراد نے بھرپور شرکت کی،لندن کا کشمیر کے حوالے سے یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا اور لوگوں نے کمال روشن ضمیری اور انسان دوستی کا مظاہرہ کیا،مظلوم کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کی ایک مثال قائم کر دی۔مظاہرہ میں لوگوں کی شرکت زاتی تعلق،مفاد اور سیاسی تعلق سے بالاتر تھی۔مظاہرہ میں آنے والوں کی ایک ہی آواز تھی کہ کشمیریوں کو ان کا اپنا پیدائشی حق خود ارادیت ملنا چائیے اور انکی تاریخی جغرافیائی اور تہذیبی ونظریاتی شناخت جو صدیوں سے قائم ہے بھارت کو اپنے اندر ضم کر کے مٹانی نہیں چاہیے جس سے صرف نہ انکی شناخت اور آزادی کو خطرہ ہے بلکہ انکی فکری وحدت بھی ہندوانہ تعصب کا شکار ہو کر پارہ پارہ ہو جائے گی۔مسلمان ہندوستان بھر میں بستے ہیں ،مگر کشمیر جغرافیائی اور تہذیبی اعتبار سے ہمیشہ ایک الگ ریاست رہی ہے۔

تقسیم ہند کے وقت بھی اسکو ایک سازش کے تحت حصوں بخروں میں تقسیم کر کے متنازعہ بنا دیا گیا،اسکی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا گیا اور اب اسکی شناخت اور وحدت کو مزید بھارت میں ضم کر کے ہمیشہ کے لئے مٹانے کی مذوم کوششیں کی جا رہی ہیں،جس کے لئے کشمیری وپاکستانی عوام کا احتجاج غیر معینہ عرصہ کے لئے جاری وساری رہے گا۔ظالم کیخلاف آواز بلند کرنا اور مظلوم کی حمائت کرنا انسانی ضمیر کا بلند ترین درجہ ہے اور پختہ ایمان کی دلیل ہے اور ایمان و کردار کی پختگی انکو حاصل ہوتی ہے جو مسلسل اس فکری و عملی جدوجہد میں شامل رہتے ہیں۔بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے والوں کے جذبہ وخلوص قابل ستائش تھا۔یہ وہ لوگ تھے جوعام محنت و مشقت کرنے والے ہیں۔جن کو ناگزیر حالات میں بھی فرصت کے لمحات میسر نہیں ہوتے۔جن کی دیہاڑی سے گھر کا چولہا جلتا ہے ،ان لوگوں نے برطانیہ بھر سے طویل سفر کر کے لندن میں ایک پورا دن کھڑے ہو کر اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا،جسمیں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے،سکھ برادری کے روشن ضمیر اور آزادی پسند بھی موجود تھے،جن کو ستائش اور نمود کی تمنا نہیں تھی،ٹی وی اور میڈیا پر آنے کو جنون نہیں تھا یہ وہ سچے لوگ تھے جنکو آزادی کے حقیقی مفہوم سے آگاہی اور پیار تھا۔ہر شخص ایک مجاہد تھا،لیڈر تھا، آزادی پسند تھا،آزادی کی شمع دل میں جلائے ہوئے تھا،حقیقی آزادی کی تحریکوں میں کوئی لیڈر نہیں ہوتا۔

عوام کی شرکت اور کردار ہی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور ان ہی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے آزادی فرد واحد حاصل نہیں کرتا قومیں حاصل کیا کرتی ہیں اور یہ منظر لندن کے مظاہرے میں کھلی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا تھا۔کیونکہ ہر کوئی بیرونی دباو سے آزاد اپنے ضمیر کی آواز پر کھڑا تھا۔اپنے ضمیر کے فیصلے پر سب کچھ چھوڑ کر مظلوم کشمیریوں کی حمائیت میں کھڑے ہونے پر انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں بھارت کے چہرے پر سیاہ اخلاقی دھبے موجود ہیں اور رہیں گئے جو مسلسل انسانی حقوق کی پا مالی کر رہا ہے۔

دنیا کی بہت سی قومیں اخلاقی لحاط سے سرخرو ہو چکی ہیں اور کمزور قوموں کو آزادی اور بنیادی انسانی حقوق دینے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔لیکن ہندوستان دنیا کا واحد خطہ ہے جو ابھی تک جہالت، تعصب اور توہم پرستی سے آزاد نہیں ہو سکا ہے،جہاں بتوں اور جانوروں کو خدا سمجھ کر پوجا جا رہا ہے اور انسان ذات پات رنگ و نسل کے خانوں میں تقسیم ہیں،یہ وہ تعصب ہے جو علم و آزادی کا دشمن ہے اور انسانیت کی بقا کو خطرہ ہے،بھارت کی معاشی قوت اپنے تعصب کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گی کیونکہ بھارت ایک کثیر نسلی قومی و ثقافتی ملک ہے جہاں ہندوانہ متعصب آئیڈیالوجی اسکی بقا کی دشمن ہے،اسی بنا پر ہندوستان میں علیحیدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں کیونکہ ہندو آئیڈیالوجی سب کو ایک وحدت کی شکل میں ایک مقام پر اکھٹی نہیں کر سکتی۔

ہندووئں کا مسلمانوں کیخلاف تعصب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،مگر برطانوی میڈیا کا تعصب ان سے بھی زیادہ قابل ملامت ہے،برطانیہ جہاں ایک معمولی سی خبر کو بحا چڑھا کر پیش کرنے کا ماہر ہے بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے ایک معمولی سی خبر شہ سرخیوں کی زینت بن جاتی ہے،داڑھی ،حجاب یا مسلمانوں کے کلچر ژادی وبیاہ جیسے مسائل پر ٹی وی پر خبریں شائع کی جاتی ہیں،مسلمانوں کی معمولی سی حرکت کو بھی ٹی وی پر اچھال دیتے ہیں ۔ایک بنگالی لڑکی شمیمہ بیگم جو داعش کیساتھ بھاگ کر جہادی گروہ میں شامل ہو گئی تھی ،مہنوں بھر ٹی وی پر اسکو اچھالا گیا۔کینسر،ماحولیاتی آلودگی اور دیگر کسی بھی حوالے سے چند افراد احتجاج کے لئے جمع ہو جائیں تو برٹش میڈیا انکو بھر پور کوریج دیتا ہے،مگر کشمیریوں کا پندرہ ہزار کا ایک تاریخ ساز اجتماع لندن میں منعقد ہوا،جسکو قانونی اخلاقی حمائت بھی حاصل تھی اور بعض انگلش اخباروں اور مجلوں میں مودی کے اس ایکٹ کی مذمت بھی کی گئی،مگر انلگش ٹی وی چیلنلز نے کشمیریوں کے اس احتجاج کی جھلک وخبر دکھانا بھی گوارہ نہیں کی۔

یہ مغربی جمہوریت کا سیاہ چہرہ ہے جسکو اقبال نے ایک صدی پہلے بیان کیا تھا۔آ میں تجھکو بتاوں مغرب کا جمہوری نظام ،چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر۔انسان نے فطری جبر پر کافی حد تک قابو پالیا ہے مگر تعصب کیخلاف جنگ جیتنا باقی ہے۔برطانیہ م کے مسلمان ممبران پارلیمنٹ اور ہاوس آف لارڈز کے ممبران پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برطانوی میڈیا تعصب کیخلاف آواز بلند کریں جو مسلمانوں اور کشمیریوں کی احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کیخلاف قائم رکھا ہوا ہے۔کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مہذب اور ترقی یافتہ قومیں ابھی تک تعصب کی عینک سے دیکھ رہی ہیں،جو انسانی اخلاق پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔

Professor Mohammad Hussain Chohan

Professor Mohammad Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان