لندن (جیوڈیسک) لندن کی شاہراہوں پر ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے برطانیہ کے یورپی یونین سے مجوزہ انخلا (بریگزٹ) کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔انھوں نے وزیراعظم تھریزا مے کی قیادت میں قدامت پرست جماعت کی حکومت سے یورپی یونین سے بریگزٹ کی کسی حتمی ڈیل سے قبل ملک میں ایک نئے ریفرینڈم کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی دارالحکومت میں پارک لین اور دوسرے علاقوں میں ہفتے کو بعد از دوپہر ’’ عوام کا ووٹ مارچ‘‘ شروع ہوا تھا اور مظاہرین پارلیمان کی جانب جارہے تھے۔بہت سے مظاہرین نے یورپی یونین کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ انھوں نے برطانیہ اور یورپ کے درمیان دیرینہ تعلقات کے بارے میں پوسٹرز بھی پکڑ رکھے تھے۔
برطانیہ کے لبرل ڈیموکریٹ لیڈر وینس کیبل کو اس مارچ کی قیادت کی دعوت دی گئی تھی۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’زندگی کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد مارچ میں شریک ہے۔ان میں ملک بھر سے آنے والے تمام عمروں کے افراد شامل ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 60 فی صد سے زیادہ لوگ بریگزٹ کی مخالفت کررہے ہیں۔
بریگزٹ کے مخالف چالیس لاکھ سے زیادہ افراد نے اسی ہفتے ایک برقی درخواست کی توثیق کی ہے۔اس میں برطانوی آئین کی دفعہ 50 کی تنسیخ کا مظالبہ کیا گیا ہے۔اسی کے تحت برطانیہ کی یورپی یونین سے طلاق کا عمل شروع ہو گا لیکن بریگزٹ معاہدے کی پارلیمان میں مخالفت کی وجہ سے اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔
برطانیہ کی قدامت پسند جماعت سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم تھریز ا مے ملک میں بریگزٹ پر دوسرے ریفرینڈم کے انعقاد کی مخالفت کررہی ہیں لیکن وہ دارالعوام میں بھی بریگزٹ معاہدے کو منظور نہیں کراسکی ہیں ۔اس پر ایوان میں دو مرتبہ رائے شماری ہوئی ہے اور دونوں ہی مرتبہ ان کی حکومت کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
لندن میں چند ہفتے قبل بھی لاکھوں افراد نے بریگزٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا ۔اس احتجاجی تحریک کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 2016ء میں بریگزٹ پر ریفرینڈم کے انعقاد کے بعد سے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج سے متعلق نئی پیچیدگیاں اور حقائق سامنے آئے ہیں ۔ اس لیے اب ایک نئے ریفرینڈم کے انقعاد کی ضرورت ہے۔
اس مارچ میں شریک لندن کے میئر صادق خان نے کہا تھا کہ ’’ جو چیز واضح ہے، وہ یہ کہ وزیراعظم کے پاس صرف ’بُری بریگزٹ ڈیل یا بالکل کوئی ڈیل نہیں ‘کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا ۔ڈھائی سال قبل جو وعدہ کیا گیا تھا،یہ اس سے لاکھوں میل دور ہے‘‘۔صادق خان کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ نوجوان برطانویوں کے ’’مستقبل کےلیے مارچ‘‘ ہے۔یہ ان کے لیے بھی ہے جنھوں نے 2016ء میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہ اس وقت بہت نوعمر تھے۔
برطانیہ کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر ماضی میں بریگزٹ پر ایک نئے ریفرینڈم کی حمایت کر چکے ہیں تاکہ عوام یہ فیصلہ کرسکیں کہ آیا وہ وزیراعظم تھریزا مے کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں یا وہ برطانیہ کی اس تنظیم میں رکنیت برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔
برطانیہ کا پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق 29 مارچ 2019ء کو یورپی یونین سے انخلا کا آغاز ہونا تھا ۔تاہم اس ’’طلاق‘‘ کے کاغذات کو ابھی حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے اور فریقین کے درمیان بہت سے امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ان میں بالخصوص جمہوریہ آئیرلینڈ اور شمالی ائیرلینڈ کے درمیان مستقبل کا سرحدی مسئلہ سب سے نمایاں ہے۔بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کی یہ واحد زمینی سرحد ہوگی کیونکہ جمہوریہ آئیرلینڈ تو یورپی یونین کا حصہ رہے گا جبکہ شمالی آئیرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
یادرہے کہ شمالی آئیرلینڈ میں کئی عشروں سے جاری مسلح شورش کے خاتمے کے لیے 1998ء میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔اس کے تحت آئیرلینڈ کے ساتھ واقع شمالی آئیرلینڈ کے سرحدی علاقے میں پولیس اور فوج کی تعیناتی ختم کردی گئی تھی ۔اب سرحد کے دونوں اطراف کے بہت سے لوگ ایک مرتبہ پھر ’’سخت‘‘ بارڈر یعنی مسلح فورسز کی تعیناتی نہیں چاہتے ہیں۔