لندن میں میانمار کے سفارتخانے پر جونیئر اہلکاروں کا قبضہ، سفیر فارغ

 London Myanmar Ambassador

London Myanmar Ambassador

لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ میں میانمار کے سفیر کا کہنا ہے کہ فوجی حکومت نے انہیں لندن میں قائم سفارتخانے سے سبکدوش کر کے ان کا داخلہ بند کردیا۔

سبکدوش کر دیے جانے والے سفیر کیوا زوار مِن نے کہا کہ دفاعی اتاشے نے فوجی حکومت کی ایما پر کچھ دیگر اہلکاروں کے ساتھ مل کر عمارت سے پر قبضہ کر لیا اور ان کا داخلہ بند کر دیا۔

میانمار میں یکم فروری کو فوجی قیادت کی طرف سے اقتدار پر قبضے نے ملک کے سفارتی حلقے کو تقسیم کیا اور اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر سمیت کئی سفیروں نے فوجی حکومت کی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔

پچھلے ماہ برطانیہ میں متعین سفیر کیوا زوار مِن نے ایک بیان میں اپنی حکومت پر زور دیتے ہوئے نظربند رہنما آنگ سان سوچی اور سابق صدر ون منٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد فوجی حکومت نے انہیں واپس طلب کر لیا تھا۔

برطانوی حکومت نے میانمار کی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ وزیر خارجی ڈومینِک راب نے کہا کہ وہ سبکدوش کردیے جانے والے سفیر کی ہمت اور حوصلے کی قدر کرتے ہیں۔

پچھلے دو ماہ کے دوران میانمار میں جنرل من آنگ ہلینگ کی حکومت نے ملک میں سویلین بالادستی کے حق میں مظاہروں کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اب تک کم از کم 598 لوگ ہلاک اور 2900 کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ بدھ کو مزید بارہ ہلاکتوں کی خبریں سامنے آئیں۔

فوجی حکام نے حکومت کی مخالفت کرنے والےایک سو سے زائد نامور اداکاروں، فنکاروں اور ادیبوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔

بدھ کو سکیورٹی حکام نے فوجی حکومت پر تنقید کرنے والے ایک مشہور اداکار، گلوکار اور ماڈل کو گرفتار کر لیا۔ چوبیس سالہ پینگ تاخون میانمار اور تھائی لینڈ کی ایک مشہور شخصیت ہیں اور فیس بک اور انسٹاگرام پر ان کے دس لاکھ فالور ہیں۔

ایک فیس بک پوسٹ میں ان کی بہن کا کہنا ہے کہ آٹھ ٹرکوں پر پچاس کے قریب فوجی آئے اور ان کے بھائی کو اٹھا کر لے گئے۔ ان کے ایک جاننے والے کے مطابق پینگ تاخون کچھ عرصے سے ڈپریشن کا شکار تھے اور گھر پر تھے۔ ایک اور جاننے والے کا کہنا ہے کہ ان کی جسمانی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی اور وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے۔ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہے۔

پینگ تاخون نے بھی فوجی اقتدار کے خلاف ملک میں جاری مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹس میں ملک کی نظربند رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔