لندن پلان کی آڑ میں 1991 ءسے پاکستان جل رہا ہے ۔2020ء کے آغاز سے پاکستان میں پھر شروع ہونے والی سیاسی گرم گرمی کے حوالے سے جاری بیانات پر سیاسی قائدین نے وضاحتیں بھی میڈیا سے سامنے پیش کیں۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا میں گردش کرنے والی لندن پلان کی خبروں کو سازش کا حصہ قرار دے دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما ءچوہدری نثار کی لندن میں موجودگی سے افواہوں کا بازار گرم رہا کہ وہ پارٹی قائدین سے اہم ملاقات کریں گے۔ماہرین کہنا ہے کہ جو سیاست دان عوام کا ساتھ نہیں دیں گے ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ لندن کے پ ±رفضا ماحول میں پاکستان میں سیاسی جوڑ کو ”لندن پلان “ کا نام دیا جاتا رہا ہے ، اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ فرہنگی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود پاکستان کی سیاست میں برطانوی حکمرانوں کا کسی نہ کسی شکل میں عمل دخل رہا ہے جنرل(ر) پرویز مشرف کی” مارشل لائی حکومت “کے خلاف لندن میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا اسی شہر میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ”میثاق جمہوریت “ پر دستخط کئے ہیں جب کہ لندن میں ہی قائد ایم کیو ایم لندن جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔سیاسی وسماجی حلقوں، ذرائع ابلاغ اورسماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک مرتبہ پھر لندن پلان کی افواہیں اور چہ میگوئیاں جاری ہیں۔
اس مرتبہ لندن پلان کے چرچے مسلم لیگ ق کے پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اختلافات ، ق لیگ اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی ملاقاتوں اور رابطوں کی افواہوں کے بعد سننے کو مل رہے ہیں۔اس سے قبل لندن پلان کے چرچے 2014 میں پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان عوامی تحریک ،عوامی مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ ق کی قیادت کے درمیان لندن میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد سامنے آئے تھے۔
ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ اسی لندن پلان کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے تحریک چلائی تھی۔خبر یہ بھی ہے کہ نوازشریف سے ملاقات کرنے والی ایک اہم شخصیت پاکستانی نہیں اور نہ ہی عرب ہے۔ یہ شخصیت جو پروٹوکول کے حساب سے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہے، نوازشریف سے رابطہ کرکے مستقبل کا نقشہ پیش کرے گی۔ بتایا یہی جارہا ہے کہ اس نقشے میں بہت کچھ قابل قبول ہے اور یہ نقشہ پاکستان کے علاوہ بھی دوررس اثرات کاحامل ہوگا۔ اس میں اس معتبر شخصیت کے علاوہ خطے کے کئی ممالک کے مفادات بھی شامل ہیں۔ مقتدر قوتوں کی طرف سے وہ ضامن کے طور پر میاں نوازشریف سے ملیں گے اور وعدے وعید ہوں گے۔اس سے پہلے ہونے والے دونوں رابطے بہت اہم تھے۔
ان میں مقتدر قوتوں کا پیغام بھی تھااور عالمی قوتوں کے پیغامات اور تمنائیں بھی تھیں، لیکن اب جو ملاقات ہونے جارہی ہے، وہ ان سب کا نتیجہ خیز راو ¿نڈ ہوگا، جس کے بعد معاہدے کی جزئیات طے کرنے کے لئے پاکستان سے اعلیٰ درجے کے ہرکاروں کو لندن آنے کی اجازت ملنے کا بھی امکان ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ1991ءسے جاری پہلے لندن پلان نے صوبہ سندھ میں ہزارشہریوں کی زندگی چھین لی ۔ بے شمار خواتین بیوہ ، بچے یتیم ہوئے ، زندہ انسان جلا دئےے گئے ۔ ابھی درجنوں کیس زیر سماعت ہیں ۔ دوسرا لندن پلان 2014ءمیں شروع ہوا ۔ جس نے ملکی معاشی کو اربوں کا نقصان ہوا۔ لاکھوں لوگ بے روزگارہوئے ۔ درجنوں بروقت طبی امداد نہ ملنے سے چل بسے ۔اب تیسرا لندن پلان شروع ہوچکا ہے ۔ صورتحا ل اس بارے بھی کوئی مختلف نہیں نظر آرہی ۔ کیونکہ لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں کہا جارہاہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدمیاں نوازشریف نے پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم لندن سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ”کچھ لو،کچھ دو“ کی پالیسی کے تحت حکومت مخالف محاذ کے لئے اتحاد کی کوششیں شروع کردیں ہیں۔
ایک تو یہ کہ پرانے لندن پلان کا یہ ہوا کہ میاں ممتاز دولتانہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں برطانیہ میں پاکستان کے سفیر، نواب اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر اور پھر بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومتیں بن گئی تھیں،جن لوگوں سے مسلم لیگ ن کے روابطہ بارے خبریں منظرعام پر آرہی ہے تقریباً تمام ہی ملک دشمن سیاسی سرگرمی میں ملوث ہیں ۔ اور پاکستانی عدالت میں مطلوب ہیں ۔ جو لندن میں زیر علاج ہیں۔
بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے بھی سیاسی پلان سے پاکستان دولخت ہو چکا، ایک سے دو اسلامی یا مسلمان ملک بن گئے،آج کے پاکستان کی تعمیر نو کی ذمہ داری پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالی گئی اور ابتداءمیں انہوں نے یحییٰ خان کی جگہ لی اور اس وقت کے جاری عمل کے مطابق صدر (معہ اختیارات چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر) کا عہدہ سنبھالا اور حکومت شروع کی۔ضرورت اس امر کی ہے کبھی بھی لند ن پلان پاکستان کے مفادمیں نہیں رہاہے۔ پاکستانی قوم کو خود فیصلہ کرنا ہو گا ۔ کہ خود کو نام نہاد پلانوں سے کیسے بچایا جائے۔