سنو! چین! پکار رہا ہئ

Pakistan

Pakistan

کہتے ہیں جس طرح انسانوںکی دوستیاں اور دشمنیاں ہوتیں ہیں ،اسی طرح ہر ملک کے دوست اور دشمن بھی ہوتے ہیں۔دنیا میں باقی ملکوں کی بات چھوڑیں پاکستان کی بات کرتے ہیں۔جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔سب سے پہلے چین نے اسے تسلیم کیا اور بھارت نے دشمنی کی۔تب سے آج تک بھارت پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھارہا ہے اور چین دوستی کی انتہا کر رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہے۔کچھ تو اس کی بغل میں بیٹھنے والے دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔اور کچھ منافق ہیں ۔چہرے پہ چہرا سجا رکھا ہے۔جو منہ پر پاکستان کے گن گاتے ہیں اور اندر سے دشمنوں کے ساتھ مل کر اس کی ساخت کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کو نیست و نابود کرے آمین!۔

بات دوستی کی چل نکلی ہے تو پاکستان کے دوستوں میں چین سر فہرست ہے۔پاکستان کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ساتھ نبھاتا آیا ہے۔ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دیا ہے۔چاہے زلزلہ زدگان کا مسلہ ہو یا سیلاب متاثرین کا۔ہر ممکن امداد فراہم کی ہے۔بجلی بحران کا خاتمہ ہو یا مہنگائی طوفان کو کنٹرول کرنے کا مسلہ ،چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔دہشت گردوں سے جنگ ہو یا کسی دشمن سے پنجہ آزمائی چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔دنیا میں نظر ڈوڑائی جائے تو پاکستان کا مخلص ترین دوست صرف اور صرف چین ہی ہے۔

چین کے لوگوں کی محبت کا واضع ثبوت یہ ہے کہ آج پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ چین کی بنائی چیزیں دسیتاب ہیں۔کپڑے سلائی کرنے والی سوئی سے لے کر اعلی سے اعلی مشینری چین کی بنائی ہوئی ہے۔ہر پاکستانی کے لبوں پر صرف اور صرف چائنہ ہی چائنہ ہے۔ محبت کی انتہا دیکھئے چین کے شہری پاکستانی زبان سیکھنے کواہمیت دے رہے ہیں اور پاکستانیوں کی ستم ظریفی دیکھئے انکلش انکلش کا ورد کرتے رہتے ہیں۔بچوں کو انکلش میڈیم اسکولوں میں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ادھر چین والے پاکستانی قومی ترانہ گا رہے ہیں۔کتنا افسوس ناک لمحہ فکریہ ہے۔

اگر چین پاکستان کا ساتھ نہ دیتا تو دشمن اس کی سرحدوں پر قابض ہو چکا ہوتا۔پاکستان کے ساتھ طویل ترین شاہراہ ”دیوار چین”پوری دنیا میں مشہورہے۔لیکن۔۔۔ بدقسمتی سے آج چین قدرتی آفات کی زد میں ہے۔پچھلے دنوںاتنا شدید زلزلہ آیا کہ روح تک کانپ اٹھی۔350افرادپل بھر میں زمین کے اندر دب گئے۔کئی گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔کئی مکان زمین بوس ہو گئے ۔زلزلہ اتنا شدید تھا کہ کوئی سنبھل بھی نہ سکا۔کئی بچے یتیم ہو گئے،کئی بیویاں بیوہ ہوئیں۔ کئی مائوں کے لخت جگر زمین میں گم ہوگئے۔کیسی قیامت تھی ۔کس کو خبر تھی کہ پل بھر میں سب مٹ جائے گا۔ہنستی بستی بستیاں کھنڈرات کا روپ دھار لے گی۔

چین کے ہمارے اوپر بہت احسانات ہیں ۔ہم ان کا ایک احسان بھی نہیں اتار سکتے۔آج ان کی نظریں مسیحا کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ ان کو ہماری ضرورت ہیں۔ادھر ہم ایک دوسرے کے گربیان پکڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چاہے تو یہ تھا ہمیںبڑھ چڑھ کر چین کی امداد کرتے۔ان کے متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے،جس طرح ان لوگوں نے اپنے خون کا آخری قطرہ دینے سے دریغ تک نہیں کیا۔اسی طرح ہمارا بھی حق بنتا تھا مگر ہمیں تو اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ نظر ہی نہیںآتا۔ اپنے پیٹ کے لئے دوسروں کے پیٹ چاک کر رہے ہیں۔احساس ،ہمددری ناپید ہو گئی ہے۔

حرص، لالچ ہماری نس نس میں سما گئے ہیں۔ کاش! ہم ان کی طرح ان کے اس دکھ میں برابر کے شریک ہوتے،ان کو آباد کرتے، ان کی مالی امداد کرتے،ان کو حوصلہ دیتے۔ مگر ہم بھی تو مجبور ہیں شاید کیوں کہ ہمارے چھوٹے بڑوں کے ہاتھوں میں کشکول تھما دیئے گئے ہیں ہمیں مانگنا تو آتا ہے ،دینا ہمارے بس میں نہیں ہے۔

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

آج عمران خان اور طاہر القادری عوام کو سڑکیوں پر ذلیل و خوار کرنے کے لئے آزادی لانگ مارچ کرنے لئے تیار کھڑے ہیں۔کاش!یہ انقلاب چین کے لئے ہوتا،یہی لانگ مارچ چین کے متاثرہ علاقے کے لئے،مکینوں کے لئے ہوتا۔لیکن کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے۔اس کا خمار ہی ایسا ہے۔کچھ نظر ہی نہیں آتا بس کرسی کرسی کا ورد رہتا ہے۔کیا غریبوں کے خون جلا کر کرسی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ارے کچھ کرنے کا بھوت سوار ہو ہی گیا تھا تو پاکستان کی بقا کے لئے کچھ کرتے۔

جنہوں نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں،ان پر قربان کیونکر نہیں ہوتے۔کاش جوش کی جگہ ہمیں ہوش بھی ہوتا۔مگر جوش میں ہم مدہوش ہیں۔انقلاب مارچ،آزادی لانگ مارچ پر لاکھوں،اربوں خرچ آئے گااگر یہی رقم ان بے سہارا ،بے گھر لوگوںمیں تقسیم کر دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔وزیرستان کے بے گھر لوگوں کی امداد کردیتے تو ان کے مرتے بچے چند سانسس سکون سے تو لے سکتے۔ان لمحوں ،میں جو دعا بھی کرتے آپ کی تقدیر ضرور بدل جاتی، نامہ اعمال میں نیکیاں بھی لکھی جاتی۔میری مانیے!کسی کو خوشی دے کر تو دیکھیں تمھارے آنگن بھی خوشیوں سے کھل اٹھیں گے۔

آج اگر ن لیگ وعدے پہ وعدے کرتی جا رہی ہے تو اسے مدت تو پوری کرنے دیں، پھر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر لینا۔آزادی لانگ مارچ میں خدانخواستہ کوئی انہونی ہوجاتی ہے تو کون ذمہ دار ہوگا؟۔جن کے سہاگ اجڑ جاتے ہیں، جو یتیم ہوتے ہیں ان کے سروں پر شفقت بھراہاتھ کوئی بھی نہیں رکھتا۔آپ بھی نہیں۔پھر تو آپ بھی کتراتے پھرتے ہوں گے۔

خداراہ ملک میں افراتفری کی فضا قائم کرنے کی بجائے امن کی فضا قائم کریں اور جس نے پاکستان کا ساتھ دیا آپ بھی ان کا ساتھ بڑھ چڑھ کر دیں۔تاکہ ہمارے کندھوں سے قرض کا کچھ تو بوجھ کم ہو سکے۔آج چین ہمیں پکار رہا ہے ،ہمیں اس کی فریاد سننی چاہیے۔ان کے روتے،سسکتے،آنسو بہاتے لوگوں کا سہارا بننا چاہیے۔اسی میں ہماری بھلائی ہے،اسی میں ہماری بقاء ہے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر:مجیداحمد جائی۔
۔۔۔۔۔۔0301-7472712
majeed.ahmed2011@gmail.com