تحریر: رقیہ غزل آج دل درد و کرب کے اس دشت میں بھٹک رہا ہے جس میں یاس سے آس کا سفر کئی صدیوں پر محیط لگتا ہے۔ قلم بھی چلنے سے قاصر ہے، آج تو شبد بھی میسر نہیں کہ میں اس درد کو قلمبند کر سکوں، میں اس ستم کا نقشہ کھینچ سکوں جو پشاور کی سرزمین پر ڈھایا گیا۔ میں ان مائوں کا حال بتا سکوں جو اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے سکول بیجھ کر، کھانا بنا کر انکے انتظار میں بیٹھی تھیں اور انھیں یہ خبر ملی کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کا بچہ اب کبھی نہیں لوٹے گا۔
میں اس باپ کی امیدوں اور خوابوں کا حال کیسے لکھوں جو اپنے بڑھاپے کی لاٹھی دیکھ کر روز باغ باغ ہو جاتا تھااوراسے کہا گیا کہ آ کر اپنے بیٹے کے لاشے کو اٹھا کر لے جائو۔وہ تو ماں باپ تھے مگر جب ہماری قوم کا مستقبل لہولہو ہوا تو یہ مناظر بصارتوں اور سماعتوں پر اس قدر بھاری گزرے کہ ہر روح گھائل ہوگئی اور احساسات منجمند ہو گئے ،ہر آنکھ اشک بار ہے یوں لگتا ہے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ہے۔سانحات ہمارے لیے نئے نہیں مگر یہ سانحہ تاریخ عالم کا ایک المناک سانحہ ہے۔
اے سفاک قاتلو !میں تمہیں وحشی لکھوں ،درندہ لکھوں یا دہشت گرد لکھوں ،تمہیں کیا لکھوں؟ اسی سوچ میں گم ہوں کہ آج جبکہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا تم نے دنیا کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کر ڈالا ۔آرمی پبلک سکول پشاور پر سفاک دہشت گردانہ حملے سے ایک بار پھر 16دسمبر 1971کے زخموں سے خون رسنے لگا ہے ۔16دسمبر وہ دن ہے جب پاکستان دو لخت ہوا اور آج لاتعداد مائوں کے جگر لخت لخت ہو گئے۔مقام حیرت تو یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے سو سے زیادہ مائوں کی گود اجاڑ ڈالی اور معصوم فرشتوں کو اپنے مضموم مقاصد کا نشانہ بنا ڈالا ۔وہ کیا دل تھے جنھوں نے غنچوں کو اس بے دردی سے خاک کر دیا اور انھیں ترس بھی نہ آیا ۔کیا وہ انسان تھے ؟ دردو غم کا یہ اندوہناک تحفہ دینے بلاشبہ پاکستان کے ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن ہیں اور ان کو انسان کہنا انسانیت کی معراج کی توہین ہے۔مگر یہ بھی اک حقیقت ہے کہ درند ے بھی بچوں پر وار کم کرتے ہیں یہ تو ان سفاک درندوں سے بھی بدتر ٹھہرے جوعقل و فہم سے عاری ہوتے ہیں ۔جنھوں نے نہتے معصوم بچوں پر سامنے کھڑے ہو کر اندھا دھند فائر کھول ڈالے ۔بچوں اور بچوں کے سکولز کو نشانے بنانے کے واقعات دنیا کی تاریخ میں بھی چیدہ چیدہ ہی نظر آتے ہیں ،چیچنیا میں شدت پسندوں نے ایک سکول کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کاروائی کے نتیجے میں زیادہ ہلاکتیں اور نقصان نہیں ہوا تھا ۔یعنی اس قدر سنگ دلی کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا گیا۔
Peshawar Incident
کوئی تو بتائے کہ ان کا قصور کیا تھا ان میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا ،کوئی انجینئر ،کوئی سائنسدان اور کوئی سیاستدان بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ سارے خواب لیکر منوں مٹی تلے جاسوئے ۔ وہ تو دہشت اور دہشت گردی کے مطلب سے بھی نابلد تھے۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ اس ملک کے شہری تھے جہاں عوام ہمیشہ سے مشق ستم رہی ہے ۔کوئی بھی واقعہ ،حادثہ یا سانحہ کچھ بھی ہو متاثر ہمیشہ عوام ہی ہوتے ہیں ۔ اے منصفو !یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جہاں سیاسی راہنما اور حکمران رہیں وہاں پرندہ بھی پر نہ مار سکے اور جب وہ گھر سے نکلیں تو بلٹ پروف اسکوارڈ ان کے ساتھ ہو اور اگر کوئی گہری نظر سے بھی دیکھ لے تو اسے سر عام گولی مار کر موت کے گھاٹ اتا ر دیا جائے اور یہاں اس لرزہ خیز سانحے کی منصوبہ بندی کی گئی اور مقررہ ہدف بھی حاصل کر لیا گیا اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی ،اس قدرمدہوشی اور ناقص انتطامات کہ دشمن جب چاہتا ہے ہمیں ٹارگٹ کر لیتا ہے اور آپ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ” ضرب عضب” کا ردعمل ہے اور یہ جنگ ہم سب کو لڑنی ہے۔یہ کہا کریں یہ جنگ عوام کو لڑنی ہے ،ویسے بھی آپ کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے ‘یہ ہم پر مسلط ہوئی ہے اور اب یہ بیرونی جنگ نہیں رہی یہ اندرونی اور بیرونی دونوں تناظر میں دیکھی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔کیونکہ ہم روز مر رہے ہیں کبھی کسی اندرونی کشمکش میں اور کبھی بیرونی۔۔ میں کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو، کوئی شاخ ہو کہ شجر ہو وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی ہمیں قتل ہورہے ہیں، ہمیں قتل ہو رہے ہیں
واہگہ باڈر کے لرزہ خیز سانحے کے بعد یہ سانحہ بلاشبہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی ناقص حکمت عملی اور باہمی چپقلشوں کا نتیجہ ہے اور یہ سیکیورٹی ،حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سب پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ کسی شعبے میں بھی کام نہیں کیا گیا،آج یہ بھی سننے میں آیا کہ پشاور بم اسکواڈ کے پاس آلات بھی کم ہیں جن سے بموں کو ناکارہ بنایا جاتا ہے ،اگر آگ لگ جائے تب بھی گاڑیاں کم ،اگر مریض ہسپتال جائے تو بھی سہولتوں کی فراہمی نہیں ‘کسی شعبے میں تو کارکردگی نظر آئے’ مگر آپ سب کی باتوں اور بیانات سے ایسا لگتا ہے’ جیسے ہم جنت میں رہتے ہیں یا جلد یہ ملک جنت کا نظارہ پیش کرے گا۔میری آج آپ تمام سیاسی پارٹیوں سے ایک گزارش ہے’ نام نہاد نعروں اور دعووں کی سیاست کو ترک کر خود کو ملک و قوم کے لیے وقف کریں اور آپس کی کشمکش اور مفادات کی جنگ کو بالائے طاق رکھ کر’اپنی اپنی انا کے بت کو توڑ کر’ یکجا ہو کر اس سرزمین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔
ایک طرف تو ہماری پاک افواج کے جوان ہیں جو ہمارے مستقبل اور آنے والی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لیے دن رات” ضرب عضب” کی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں ، اور دوسری طرف ٦ مہینے سے پورے پاکستان میں انتشار، افراتفری، لاقانونیت اور موت کا بازار گرم ہے، نہ خود آپ کوئی کام کرتے ہیں نہ ان کو کرنے دیتے ہیں اب ہی ہوش کے ناخن لیں کیونکہ وہ جو جنگ لڑ رہے ہیں اس کے ردعمل کافی ہولناک ہیںاوریہ تو نوشتئہ دیوار کیطرح ہے کہ اس سانحے کی وجہ Intellegence Failure اور Political Diversion ہے ۔حیف صد حیف کہ حریف بھی جان گیا کہ آپ سب ہوس اقتدار میں مست مئے پندار ہیں اور وار کر گیا۔ مگر۔۔اب وقت متقاضی ہے کہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں یکجا ہوکر پاک فوج کا ساتھ دیں اور ایسی حکمت عملیاں وضع کریں جس سے ایسے سانحات پر بروقت قابوپایا جاسکے اور ملکی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹا جا سکے اس لرزہ خیز سانحے پر پورے پاکستان کی تمام تاجر، سماجی، سیاسی ،صنعتی ،صحافتی، علمی و ادبی تمام برادریاں اس سانحے کے متاثرین کے غم میں برابر کی شریک ہیں بلاشبہ یہ بہت بڑا غم ہے جس کا مداوا ممکن نہیں، ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام لواحقین کو حوصلہ وہمت اور تمام شہداء کوجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان غنچوں کے سفاک قاتلوں کو عبرت ناک سزا ملے ‘جنھوں نے کھلنے سے پہلے انھیں خاک میں ملا دیا۔