تحریر : اے آر رحمن پاکستانی معاشرے میں علماء کرام اور مفتیان عظام کو ایک مسئلہ پر بحث و تمحیص اور عوام الناس کی جانب سے استفسارات کا سامنا ہے ۔وہ یہ کہ کیاماں کے یٹ میں مجہول و عیب شدہ بچہ کے حمل کو گراناحلا ل ہے یا حرام؟اور اس سلسلہ میں شریعت اسلامی کا کیا حکم وموقف ہے ۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعثہ الازہر نے ایک سیمینار بعنوان”معیوب بچہ کااسقاط حمل اسلامی فقہ کی روشنی میں” منعقد کیا۔اس پروگرام کو بعثہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر خالد فواد الازہری نے ترتیب دیا جبکہ سیمینار میں موضوع کی مناسبت سے جامعہ ازہر کے استاذ اور اسلامی یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی میں تدریسی فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر محمد ابراہیم سعد النادی نے خصوصی سے خطاب کیا۔
افتتاحی کلمات پیش کرنے کی سعادت کلیہ اللغہ العربیہ کے استاذ اور بعثہ ازہر کے رکن ڈاکٹر حسن عبدالباقی نے حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ اللہ جل شانہ نے اس خوبصور ت کائنات کو انسانیت کے لئے وجود بخشا اور انسانوں ہی کی منفعت و فائدہ کے لئے اس کو مسخر کردیا۔جیسے اللہ پاک کا ارشاد ہے ”کہ زمین کو ہم نے انسانیت کے فائدہ کے لئے بنایا”اور فرمایا”کیا نہیں دیکھتے کہ اللہ نے مسخر کیا تمہارے لئے(انسان) زمین و آسمان کو اور جوکچھ اس میں ہے”اس طرح دیگر آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کو انسانیت کے لئے سجایا و بچھایاگیا ہے۔
ڈاکٹر حسن عبدالباقی نے یہ بھی ذکر کیا کہاگر ہم غور وفکر سے جائزہ لیں تو کائنات و دنیا کی سبھی مخلوقات اللہ کی حمد وثناء بیان کرتی ہیں۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان ہے کہ”کوئی چیز نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح نہ پڑھتی ہو مگر تم نہیں سمجھتے ان کی تسبیح کو”۔پھر انہوں نے بیان کیا کہ زمین میں جو ظلم و جور کا فساد بپاہے وہ خود اسی انسان ہی کے اعمال و افعال کے سبب ہے جس میں طمع و لالچ کا عنصر شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”خشکی وتری میں فساد ظاہر ہوا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے”ورنہ یہ کائنات تو نہایت پر سکون و خوبصورت بنائی گئی تھی۔انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ جل شانہ نے انسان کو عزت وتکریم اور فضیلت دی ہے تمام مخلوقات پرارشاد ہے ”ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ”مگر اس کی درست تفہیم و تحقیق دانش مند اور زندہ دل انسانوں کو ہی حاصل ہوتی ہے وگرنہ بہت سے اس ظلم و سربریت کے عمل سے ناآشنا بنے رہتے ہیں۔
Isqat Hamal Function
ڈاکٹر محمد سعد النادی نے موضوع کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے ”مسئلہ معیوب بچہ کے اسقاط حمل”سے متعلق فقہاء اور علماء کی آراء و موقف کو پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عام ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ کسی بھی انسان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو قتل کرنے والے کو مغفرت و بخشش سے محروم کردیا گیا ہے اور یہ گناہ کبیرہ میں سے ہے قرآن حکیم نے اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔اسی طرح نبی مکرم و محبوب معظمۖ نے بھی انسان کے قتل کے گناہ کو کعبہ شریف کی حرمت سے بڑافرمایا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء اسقاط حمل سے منع کرتے ہیں کیوں کہ وہ ایک زندہ انسان ہے ۔۔۔کیوں کہ جب بچہ میں روح پھونک دی جاتی ہے تو وہ انسان ہی متصور کیا جائے گا۔انہوں نے فقہاء کی آراء پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض ک نزدیک نطفہ ایک زندہ عنصر سمجھا جاتاہے اور اس کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ”وہ ذات تصویر بناتی ہے جیساکہ چاہے وہ”۔
انہوں نے کہا کہ حمل میں جب روح پھونک دی جائے تو اس کا اسقاط حرام ہے اور وہ ایک انسان کا بغیر کسی سبب قتل ہوگا۔اور اگراس حمل میں روح نہ آئی ہو اور یہ بات طے شدہ ہوکہ بچہ کے پیداہونے کی وجہ سے اس کی ماں جو کہ ایک حقیقت میں زندہ و جاوید ہے کو نقصان و ضرر پہنچے گا تو لازمی ہے کہ وہ حمل گرادیا جائے ۔اس کی اجازت اس لئے ہے کہ وہ حمل جو رحم مادر میں ہے اس کے زندہ پیداہونے کا امر یقینی نہیں ہے۔
Isqat Hamal Function
اس کے بعد انہوں نے عیب شدہ حمل کی دوقسمیں بیان کی ہیں پہلی یہ کہ وہ ایسا بڑی عیب ہو جس کے سبب اس کی حیات مشکل ہوجائے مثلاًحلق میں پھوڑاجس سے سانس کے لینے کا عمل متاثر ہو یا حرکت قلب کے بند ہونے کا مرض ،یا ایسا عیب ہو جس کے بغیر انسان نامکمل متصور کیا جائے ،گردے ،جگر اور آنتڑیوں کا نہ ہونے کی صورت میں بھی حمل گرانا جائز و درست ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل میں ایسا عیب ہو جس کا علاج و معالجہ ممکن ہو مثلاً جسمانی ساخت میں ہم آہنگی کا ناہونا ،دانتوں کا مرتب نہ ہونا اور ہاتھوں وغیرہ میں عیب کی موجودگی۔ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے معیوب بچہ کی پیدائش پر اصرار کیا جائے جو خود بھی دنیا میں تکالیف اٹھائے اور اس کے والدین بھی اس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہیں۔
بعثہ ازہر کے رکن ڈاکٹر محمود حربی نے ماسبق کلام کی تاکید کی اور اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری بات ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ حمل میں روح کب پھونکی جاتی ہے تو اس بارے میں فقہاء کا موقف یہ ہے کہ ایک سو بیس دنوں میں حمل میں روح پھونک دی جاتی ہے اور ممکن ہے کہ پہلے مرحلہ میں حمل کو گرادیا جائے اور انہوں نے نبی کریمۖ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ”تم میں سے ہر ایک ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ رہتاہے پھر اسی مدت کے بقدر لوتھڑااور پھر اس قدر چالیس دن گوشت بنتاہے اور پھر چالیس دن کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔
Isqat Hamal Function
”فقہاء کے دواور طبقں کا موقف یہ ہے کہ حمل میں بیالیس دن بعد روح پھونک دی جاتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ کوئی حمل بیالیس دن کے بعد ساقط نہیں کرایا جاسکتامگرہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو سہولت و آسانی کا راستہ بتلایا جائے۔بعثہ ازہر کے رکن ڈاکٹر محمد الناشی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر ذمہ داری سے غورفکر کیا جائے اورعلم حدیث وفقہاء کے موقف میں مطابقت پیدا کی جائے اور ساتھ ہی حمل کے جائزہ لینے کے عمل میں غفلت سے کام نہ لیا جائے۔
بلکہ مسئولیت کا احساس کرتے ہوئے گاہے بگاہے الٹراسائونڈ کے ذریعے سے حمل کا جائزہ لینا چاہیے۔سیمینار میں مفصل گفتگو کے بعد بیان کیا گیا کہ لازم معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی حمل کو گرانے سے پہلے ایک طبیب نہیں۔
بلکہ ڈاکٹروں کی کمیٹی یا متعدد ڈاکٹروں کی رائے معلام کرکے حمل گرانے یا نہ گرانے کا فیصلہ کیا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر دیانت دار و امین ہوں ۔پروگرام کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوا درست جواب دینے والے طلبہ کو بعثہ ازہر کی جانب سے انعامات دئیے گئے۔