گوپال گنج بہار کی مٹی سے معرض وجود میں آنے والے شاعروادیب افروزعالم جو سعودی عرب کے بعد آج کل کویت میں فروکش ہیں ۔حلقہ ہائے اب کے ارباب حل و عقداور پرستاران شعروسخن میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ ایک کثیرالجہات کثیرالتجربات کثیرالموضوعات اور کثیرالاشاعت شاعروادیب و خطیب مضمون نگار مقرراور مبصر کی حیثیت سے برصغیرہندوپاک ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک اور کینیڈا و امریکہ میں بھی اپنی مکمل شناخت مستحکم کرچکے ہیں۔ موصوف کا اوّلین شعری مجموعہ ”الفاظ کے سائے”زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہوکر اور منصۂ شہود پر اپنے جلوں کی گہر پاشیاں کرکے بڑے پیمانے پر اپنی محبوبیت و مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکاہے ۔ یہ مجموعہ ٢٠٠٧ء میں منظر عام پر آنے کے بعد ان کا اگلااور دوسرا شعری مجموعہ جو دیوناگری لپی میں تھا۔ ٢٠٠٩ء میں منظر عام کی زینت بنا۔ پھر تیسری کتاب ”مناظر جناب کے” زیر عنوان ٢٠٠٩ء میں اشاعت پذیر ہوئی ۔
جہاں تک ان کی تالیفات کاتعلق سے وہ بھی بقدر تعداد تین ہیں۔ ”فصل تازہ” جو کویت میں مقیم ١٤ شعرائے کرام کے مع کوائف و تصاویرکلام پر مبنی ہے اور جس میں شاعروںکے فکروفن کا جائزہ بھی لیاگیاہے۔٢٠٠٥ء میں شائع ہوکر بنظر استحسان دیکھی گئی۔ ان کی دوسری تالیف جس کا سرنامہم یا عنوان”کویت کے اہل قلم” ہے جس میں کویت میں مقیم ٤٠ شعراء و ادبا کی تخلیقات مع تعارف یکجاکی گئی ہیں۔ ٢٠٠٦ء میں منظر عام پر رونق افروز ہوئی۔ تیسری تالیف جو رشید میواتی کے فن و شخصیت کو احطہ کرتی ہے اس کی اشاعت کاسال ٢٠٠٩ء ہے ۔ علاوہ ازیں ان کی اور بھی تین کتابیں ابھی اشاعت کی منتظر ہیں۔ حال ہی میں ”افروز عالم فن اور شخصیت ” کے عنوان سے جو کتاب جلوہ گہہ آفاق پر طشت ازبام ہوکر دعوت فکردے رہی ہے۔
میرے پیش نگاہ ہے لہٰذا اسی کے تناظرمیں گفتگو مقصودہے ۔ تحریک ادب بنارس کے زیر اہتمام شائع ہوئی یہ کتاب جو ٢٥٥ صفحات کو محیط ہے اور مجلدبھی جس کے سرورق کو افروز عالم کی خوبصورت اور متبسم تصویر سے آراستہ کیاگیاہے یہ روشن کتابت و طباعت کے اعتبار سے بھی خاصی پُر کشش اور دلپذیر ہے جس میں مشمولہ ٤٢ رنگین تصاویر کے اضافے سے کتاب کے حُسن میں چار چاند لگ گئے ہیں کتاب کی مرتبہ سری نگر کی سیدہ نسرین نقاش ہیں۔ جہاں تک کتاب کی فہرست کا تعلق ہے ۔ وہ دس عدد ذیلی عنوانات کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے ۔ (١) کوائف کے تحت نورپرکار شاہو حنائی شاہجہاں جعفری حجاب اور سید تسلیم اکبرشاہ نے ذاتی تعلق کی روشنی میں افروز عالم کی شخصیت اور ان کے فن کے حوالے سے دلچسپ گفتگو کی ہے ۔
(٢)تاثرات کے باب میں ١١ اہالیان قلم نے ان کے شعری مجموعے ”الفاظ کے سائے” کے تناظر میں ان کی ِِٰ جومومم شعری کائنات کابڑی گہرائی و گیرائی اور ژرف نگاہی سے جائزہ لے کر ان کی شعروفنی خصوصیات کو آشکار کیاہے۔ان گیارہ مضمون نگاروں میں پروفیسر علیم اللہ حامی افتخار امام صدیقی ۔ کوثرمظہری اور ڈاکٹر ارشد مسعودہاشمی جیسے ارباب حل و عقد اور ثقہ و نابغہ شخصیات بھی شامل ہیں ۔
(٣) مضامین فصل تازہ کت باب میں مسرت جبیں زیبااور محمودشاہدنے مشارکت فرماکر اس کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات درج کرائے ہیں جو نقدونظر پر مبنی ہیں ۔ (٤) شخصیت و فن کی قوس و قزح کے باب میں ١٣ نامورہستیوں کے نام بیش بہانگینوںکی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ان سبھی نے دلائل براہن سے افروزعالم کو ایک معیاری و منفردشاعر ثابت کرنے کی حسب توفیق سعی جمیلہ فرمائی ہے ان میں مناظر عاشق ہرگانوی ڈاکٹر سلیم قیصر سید معراج جامی اور عشرت ظفر بھی شامل ہیں۔
Afrozz Alam
(٥) تبصرے کے باب میں کل سات تبصرہ نگاروں نے شرکت کی ہے ۔ ان میں ڈاکٹر احمدسجاد ، ڈاکٹر ماجد دیوبندی اور احمد خلیل جازم نے فصل تازہ کے تناظر میں تبصرہ آرائی فرمائی ہے جبکہ ڈاکٹر امام اعظم ہمایوں اشرف قاضی رئیس اور خالد نقاش نے مختصر تحاریرمیں ان کے شعری مجموعے” الفاظ کے سائے”کوکھنگالا ہے۔
(٦) بنام افروز عالم کے تحت وہ خطوط یکجاکئے گئے ہیں جو مشاہیر ادب نے افروز عالم کے نام لکھے ہیں۔ان ٩ مشاہیر میں ستیہ پال آنند عبدالاحد ساز، ڈاکٹر شبنم گورکھپوری اور اصغر ویلوری وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ یہ خطوط افروز عالم کی ہمہ گیرشہرت و مقبولیت کی علامت ہیں۔ (٧) منظومات کے باب میں وہ نظمیں درج کی گئی ہیں ۔ جو انہیں خراج عقیدت کے بطور پیش کی گئی ہیں ۔ (٨) انٹرویوکے تحت ان سے ڈاکٹر افضل شاہین اور فرزانہ سہاب مرزا کے لئے ہوئے انٹرویوز کو شامل کتاب کیاگیاہے ۔
(٩) انتخاب منظومات کے باب میں افروزعالم کی نظموںاور غزلوںکو جگہ دی گئی ہے ۔ (١٠) تصاویر(رنگ و بق آخری باب ہے جس میں مشاہیر ادب کے ساتھ لی گئی ان کی رنگین تصاویرکو چسپاں کیاگیاہے ۔ باعتبار شخصیت افروز عالم خوش اطوار ،خوش گفتار، خوش رفتار،روادار،وضعدار،فراخ دل،کشادہ ذہن، منکسر المزاج،دردمند،ہمدرداور انسان دوست شخصیت کے مالک ہیں۔ جب وہ سعودی عرب میں فروکش تھے وہاں سب سے گھل مل گئے تھے اور اب یہاں وہ کویت کی انجمنوں اور محفلوںکے بھی روح رواں بنے ہوئے ہیں۔
ان کے طور طریق روز مرہ کے معمولات اور مزاج و منہاج کی مرقع کشی میں ان کے قریبی اور صاحب اسلوب فنکارو ادیب اور عزیز دوست جناب شاہد حنائی نے کمال کر دکھایاہے جو انہیں کا حصہ ہے ۔ مضمون کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے ”افروز عالم نے ادب اور ادباء کے لئے دن رات دامے درمے قدم سخنے جی جان سے محنت اور خدمت کی ہے ۔ بیرون کویت سے آنے والی ہر ادبی شخصیت کے استقبال کو ہوائی اڈّے پر موجودرہتاہے ۔مہمان جو ایّام کویت میں گزارتاہے افروزاس کاسایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتاہے۔
خاطر مدارات جی حضوری خوشنودی مہمانداری میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھتا۔ مقامی سطح پر کوئی مشاعرہ ہویا کسی کتاب کی تقریب رونمائی،نامزد صدر،مہمان خصوصی ،مقررین سمیت سامعین تک سے رابطے میں رہنا، پروگرام میں فوٹو گرافی کی ڈیوٹی نبھانے سے لے کر شرکاء کو کھاناکھلانے کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے ادا کرتاہے۔”
جہاں تک افروزعالم کی شاعری کاتعلق ہے وہ کلاسیکی اور روایتی مزاج و انداز کے شاعرہیں۔ دقاقت و ثقافت اور ژولیدگی و پیچیدگی سے انہیں دور کابھی علاقہ نہیں ہے ۔ بھونڈے بھدّے بیہودہ اور ناشائستہ الفاظ کی وہ اپنی شاعری پر پرچھائیں بھی نہیں پڑنے دیتے۔شستگی، شائستگی، سادگی، شگفتگی، نغمگی،تازگی،بے ساختگی، برجستگی،فریفتگی، وارفتگی، شیفتگی،رنگارنگی اور خوش آہنگی ان کی شاعری میں اجزائے لاینفک کادرجہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جمالیاتی لطافت موسیقیت ،حلاوت اور متغزلانہ کیفیت کا رچاؤ بساؤ دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔
افروز عالم عشق و عاشقی ،حسن و جمال،محبوب کی پیکرتراشی،ہجرووصال،غم و خوشی اور محبت میں فتح وشکست کے موضوعات کو پیچیدہ قسم کے فلسفیانہ خیالات پر فوقیت دیتے ہیں۔ان کی شاعری کی قطب مینار ان کے اپنے مشاہدات و تجربات ،جذبات و احساسات اور قلبی واردات کی بنیاد پر ایستادہ ہے۔ ماناکہ ان کے یہاں رومانیت کا رنگ گہراہے مگر اسے معیوب قرار نہیں دیاجاسکتاکیونکہ روایتی شاعری کی اساس ہی حکایاتِ پایار گفتن اور حدیث دل بہ دلبراں کے نظریے پر ٹکی ہوئی ہے ۔ عشقیہ شاعری میں خیالات کی پاکیزگی اور بے لوث قسم کے انکساروایثار کی ادا فی الفور دلوںمیں گھر کر لیتی ہے ۔ہمیں یہی رنگ و آہنگ افروز عالم کی شاعری میں بھی دمکتاچمکتادکھائی دیتاہے ایسے ہی مہذب اور لطیف و اطہرجذبات سے معموروموثر اشعار ذیل مییں ملاحظہ ہوں (١) جُنونِ زخم محبت بھی ہے عجب تحفہ چمک رہاہے بدن پر مرے قباہوکر
(٢) جلا رہی ہے تمنّاؤں کے کِھلے گلشن ہتھیلیوں کی مہک شعلہ حنا ہوکر
(٣) ہر پَل خیال ان کا ہے ان کی ہی آرزو رہتاہوں دل کی دنیا منور لئے ہوئے
(٤) نگاہ ملتے ہی پلکوں کا وہ جھکا لینا حیامیں کتنی ہے چاہت کسی کو کیا معلوم
تہذیب کے زوال اور مادیت کے عروج نے خیروشر اور نیکی و بدی کی تفریق ہی مٹاکر رکھ دی ہے جس سے بہت سے سماجی سیاسی اور تہذیبی و اخلاقی مسائل نے معاشرے میں انسانی زندگی کو اجیرن بناکر رکھ دیاہے ۔عصرحاضر کاایسی ہی تلخ سچائیوںپر مبنی حقیقی منظرنامہ علامتوںاور اشاروںکنایوںمیں ہمیں افروز عالم کی شعری کائنات میں جلوہ طراز نظر آتاہے جذبات کی ہر بات سے ہم جو جھ رہے ہیں بگڑے ہوئے حالات سے ہم جوجھ رہے ہیں آوارہ ہواؤں کا پتہ کون بتائے گا سازش کی عنایات سے ہم جو جھ رہے ہیں
چونکہ کتاب افروزعالم کے فن اور شخصیت پر مبنی ہے اس لئے کتاب کے متعلقہ ابواب کے مزاج کو نشانِ خاطر کرنے کے بعد شاعر کے فکروفن پر جتنا لکھ دیاہے وہی کافی ہے ۔ اس سے زیادہ کی گنجائش اس لئے نہیں کہ یہ کوئی شعری مجموعہ نہیں ہے ۔