کیا تو نے دیکھا نہیں تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا

Battle

Battle

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
ملک یمن پر خاندان حمیر کا قبضہ تھا ۔یہ لوگ مذہباً مشرک تھے ان کا آخری بادشاہ یوسف ذونواس تھا ۔جس نے یمن کے اہل حق نصاریٰ پر شدید مظالم کیئے تھے اور توحید پرست عسائیوں کو خندقوں میں زندہ جلا دیا تھا اصحاب الاخدود کا مشہور واقعہ اسی بادشاہ سے منسوب ہے جس کا تذکرہ قران حکیم کی سورة البروج میں آ چکا ہے ۔خندق کے عذاب سے بچ کر کسی طرح دو آدمی نکل بھاگے تھے اور انہوں نے ملک شام کے بادشاہ سے فریاد کی کہ یوسف ذونواس نے اہل ایمان کے ساتھ ایسا ظلم کیا ہے شام کے بادشاہ نے اپنے حلیف حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھا وہ اس کا انتقام لے ساتھ ہی ایک بہت بڑے لشکر کو دو کمانڈرز اریاط اور ابرہہ کی قیادت میں یمن کے اس ظالم بادشاہ کے مقابلہ پر روانہ کیا یہ عظیم الشان لشکر یمن پر ٹوٹ پڑا اور پورے یمن کو حمیر خاندان کے اثر سے آزاد کرا لیا ذونواس بھاگ نکلا اور ایک دریا پار کرتے ہوئے غرق ہو گیا ۔اس طرح اریاط اور ابرہہ کے ذریعہ یمن پر حبشہ کے بادشاہ کا قبضہ ہو گیا جو خود نصرانی مذہب تھا۔

یہ واقعہ 525ء میں پیش آیا تھا ” جس نے حمیری خاندان کا خاتمہ کر دیا کچھ عرصہ بعد ان دونوں کمانڈروں اریاط اور ابرہہ کے درمیان تنازع کھڑا ہو گیا اور باہمی جنگ میں اریاط مارا گیا اور ابرہہ غالب آ گیا ۔پھر وہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی جانب سے ملک یمن کا حاکم مقرر ہو گیا ۔ابرہہ ذاتی طور پر کٹر عیسائی تھا اس کے عزائم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ سارے عرب کو عسائیت میں تبدیل کر دیا جائے اس طرح کہ مکہ مکرمہ کی عالمی مرکزی حیثیت ہی ختم ہو جائے ۔مذہبی جنون میں اس نے یمن کے شہر صنعا میں ایک شاندار کلیسہ(گرجا گھر ) بنایا جس کی نظیر اس وقت دنیا بھر میں نہ تھی۔

مورخ سہیلی لکھتے ہیں کہ ابرہہ نے اس کی تعمیر پر یمن کی بے اندازہ دولت اور بیش بہا زرو جواہرات صرف کیئے یہ قیمتی پتھروں کی بہت ہی خوبصورت طویل و عریض عمارت تھی عجیب و غریب زرکار نقوش سے مزین ‘ زرو و جواہر سے مزین ‘ہاتھی دانت کی نفیس جالیاں ‘سونے چاندی کے اوراق سے درو دیوار کو سجایا گیا تھا اس سے ابرہہ کا مقصد تھا کہ یمن کے عرب لوگ جو ہر سال حج کرنے مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں یہ لوگ اس کلیسہ کی شان و شوکت سے مرعوب ہو کر کعبتہ اللہ کی بجائے اس کا طواف اور حج کریں ۔کچھ عرصہ بعد اس نے پوری مملکت میں اعلان کروا دیا کہ اب یمن سے کوئی شخص حج کرنے کے لیئے مکہ مکرمہ نہ جائے گا ہر شخص اسی کلیسہ میں آئے اور حج کرے ۔عرب میں اگر چہ بت پرستی غالب آ گئی تھی مگر دین ابراہیمی اور کعبتہ اللہ کی عظمت و محبت ان کے دلوں میں پیوست تھی اس لیئے عدنان’ قحطان اور قریش قبائل میں اس اعلان سے سخت غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔اگر چہ اس وقت خانہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے تھے

Khana Kaba

Khana Kaba

اس کے باوجود لوگ اس کو اللہ کا گھر مقدس اور عبادت کا مرکز خیال کرتے تھے مورخ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ ابرہہ کے اس اعلان پر غضب ناک ہو کر ایک عرب تاجر نے کسی نہ کسی طرح اس کلیسا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی ۔ابن کثیر لکھتے ہیں ایسا کوئی بھی واقعہ پیش آیا ہو تو کوئی تعجب خیز بات نہیں کیونکہ ابرہہ کا یہ اعلان اتنا مفسدانہ اور اشتعال انگیز تھا اور قدیم جاہلیت کے دور میں کسی عربی یا قریشی نوجوانوں کا کلیسا کو گندہ کر دینا یا آگ لگا دینا نا قابل فہم بات نہیں ہے ۔ابرہہ کو جب یہ اطلاع ملی کہ خانہ کعبہ کے معقتدین نے یہ حرکت کی ہے تو اس نے غیض و غضب میں یہ عہد کیا کہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک (نعوز باللہ) خانہ کعبہ کو ڈھا نہ دوں اس کے بعد اس نے 570 یا 571میں اپنے بادشاہ نجاشی سے اجازت طلب کی کہ وہ انہدام کعبہ کی مہم کے لیئے حجاز جانا چا ہتا ہے نجاشی نے اسے اجازت دی اور اور خصوصی تعاون کے طور پر اپنی فوج کا سب سے طاقتور اور بلند و بالا ہاتھی جس کا نام محمود تھا ابرہہ کی مدد کے لیئے روانہ کر دیا اور اس ہاتھی کے تعاون کے لیئے مزید سات آٹھ ہاتھی اور دیئے ابرہہ ساٹھ ہزار کی فوج لے کر مکہ روانہ ہوا ۔عرب میں اس حملے کی خبر پھیلی تو سارا عرب مقابلے کے لیئے تیار ہو گیا ابرہہ راستے میں تمام عربوں کو شکست دیتے ہوئے جب طائف کے مقام پر پہنچا تو اس نے قبیلہ خشعم کے سردار نفیل بن حبیب خشعمی کو بھی گرفتار کر کے اپنے ساتھ رکھ لیا تھا تاکہ وہ مکہ کے اہم راستے بتائے ۔طائف کے باشندے ابرہہ کی فتح کے واقعات سن چکے تھے انہوں نے اپنی خیر منانے کا فیصلہ کیا اور ابرہہ سے گذارش کی وہ ان کے مشہور معبود (لات ) کا مندر تباہ نہ کرے تو ہم مکہ کا راستہ بتانے کے لیئے ایک آدمی ساتھ کر دیتے ہیں ابرہہ نے یہ بات قبول کر لی

اور بنو ثقیف نے ابو رغال نامی شخص کو اس کے ساتھ کر دیا ۔جب مکہ مکرمہ تین کوس کے فاصلے پر رہ گیا تو المفس نامی مقام پر پہنچ کر ابو رغال فوت ہو گیا اہل عرب زمانہء جاھلیت میں مدتوں اس کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے اور بنو ثقیف کو بھی عرصہ دراز تک طعنہ دیتے رہے کہ انہوں نے لات کے مندر کو بچانے کے لیئے بیت اللہ پہ حملہ کرنے والوں کا تعاون کیا تھا ۔محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ المفس سے ابرہہ نے اپنے مقدمتہ الجیش کو آگے بڑھایا ‘ جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے ابرہہ کے لشکر نے ان پر چھاپہ مارا اور سب اونٹ ہانک کر لے گئے ان میں حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی شامل تھے ۔اس کے بعد ابرہہ نے اپنے ایک سفیر حناطہ حمیری کو شہر مکہ روانہ کیا اور اس کے ذریعیہ اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ۔۔۔میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو ڈھانے آیا ہوں اگر تم لوگ جنگ نہ کرو تو تمھارے جان و مال سے تعرض نہ کرونگا ” نیز اس سفیر نے یہ بھی ہدایت دی کہ اہل مکہ اگر بات کرنا چاہیں تو ان کا سردار میرے پاس آ جائے۔

اس وقت مکہ کے سب سے بڑے سردار نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب تھے سفیر نے ان سے مل کر ابرہہ کا پیغام پہنچایا ۔ عبد ا لمطلب اس کے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئے حضرت عبد ا لمطلب اس قدر وجیہہ اور با وقار آدمی تھے کہ ابرہہ ان کو دیکھ کر متاثر ہو گیا اور اپنی جگہ سے اتر کر ان کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا ” کہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟”انہوں نے کہا میرے جو اونٹ پکڑ لیئے گئے ‘وہ مجھے واپس دے دیئے جائیں ۔” ابرہہ نے کہا آپکو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا مگر آپکی بات نے آپ کو میری نظر سے گرا دیا ہے آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ جو گھر (کعبہ) آپکے آبائی دین کا قبلہ ہے ‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ؟”حضرت عبد ا لمطلب نے کہا میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں ‘ انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں ‘ رہا یہ گھر (کعبہ) تو اس کا مالک رب ہے ‘ وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔”

ALLAH

ALLAH

ابرہہ کو عبد ا لمطلب کی یہ بات بہت معمولی محسوس ہوئی اس نے کہا تمھارا رب اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچا سکے گا۔” انہوں نے کہا پھر تم کو اختیار ہے جو چاہو کرو ۔”بعض روایات میں ہے کہ ان کے ساتھ قریش کے چند اور سردار بھی تھے انہوں نے تجویز کیا کہ اگر ابرہہ بیت اللہ پر دست اندازی کیئے بغیر واپس لوت جائے تو ہم پورے تہامہ (حجاذ) کی ایک تہائی پیداوار آپ کو بطور خراج ادا کرتے رہیں گے مگر ابرہہ نہ مانا ۔حضرت عبد ا لمطلب اپنے اونٹ لے کر واپس چلے آئے اور سیدھے بیت اللہ میں داخل ہوئے اور چوکھٹ کا حلقہ پکڑ کر دعا میں مشغول ہو گئے قریش کی ایک بڑی جماعت بھی ان کے ساتھ تھی انہوں نے اہل قریش سے کہا اپنے بال بچے لے کر پہاڑوں پر چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو جائے ۔پھر کعبہ کا دروازہ پکڑ کر دعائیں کرتے رہے اللہ اپنے گھر اور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے ۔اس وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے مگر اس نازک گھڑی میں وہ ان سب کو بھول کر اللہ واحد کو پکارتے رہے ۔دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیئے آگے بڑھا مگر اس کا وہ خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا سب سے آگے آگے تھا یکا یک بیٹھ گیا تیر مارنے ،کچوکے لگانے اور زخمی تک کرنے کے با وجود ہلا تک نہیں اس کو جنوب شمال اور مشرق کی طرف موڑ کر چلاتے تو دوڑ پڑتا مگر مکہ کی طرف منہ کرنے پر فوراً بیٹھ جاتا اور آگے بڑھنے کو کسی طور تیار نہ ہوتا۔

اتنے میں پرندوں کی قطاریں آتی نظر آئیں ‘ جن میں سے ہر ایک کے پاس تین کنکریاں مسور یا چنے کی دال کے برابر تھیں ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں ۔۔۔ واقدی کہتے ہیں یہ پرندے عجیب طرح کے تھے ‘ جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے بدن کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے اور پنجے سرخ قسم کے تھے ۔ان کی آواز بھی کچھ ارتعاش انگیز تھی کہ دل کپکپائے جاتے تھے ۔پرندوں کے یہ جھنڈ ابرہہ کے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کرنے لگے جس پر بھی یہ کنکر گرتے جسم سے پار ہو جاتے اور جسم گلنا شروع ہو جاتا ۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ کنکری لگتے ہی گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا ۔پورے لشکر میں افرا تفری پیدا ہو گئی ۔لشکر کے لوگ یمن کی طرف بھاگنا شروع ہو گئے ۔ابرہہ نفیل بن خشعمی کو تلاش کر کے درخواست کرنے لگا کہ واپسی کا راستہ بتا ئو مگر اس نے صاف انکار کر دیااور کہا اب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ اللہ تعاقب کر رہا ہے اور نکٹا ابرہہ مغلوب ہے غالب نہیں ہے ۔اس بھگدڑ میں لوگ گر گر کر مرتے جاتے تھے اور مر مر کے گرتے جاتے تھے عطا بن یسار سے روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوئے ایک بڑی تعداد تو وہیں ہلاک ہوئی اور کچھ واپس بھاگتے ہوئے ہلاک ہوئے ابرہہ بھی انتہائی بری حالت میں بلاد خشعم پہنچ کے مرا ۔ابرہہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہج ہو گئے تھے محمد بن اسحاق نے حضرت عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے انھیں اس حالت میں دیکھا کہ اندھے اپاہج ہو کر بھیک مانگتے پھرتے تھے۔” اصحاب الفیل کا یہ واقعہ مزولفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محصب کے قریب مقام محشر پہ پیش آیا تھا ۔یہ عبرت ناک واقعہ ماہ محرم مین پیش آیا اور نبی کریم ۖ کی ولادت با سعادت چالیس یا پچاس دن بعد ہوئی۔

اہل عرب میں یہ واقعہ اس قدر مشہور و معروف تھا کہ انہوں نے اس سال کا نام عام الفیل ( ہاتھیوں کا سال ) رکھ دیا ۔قران کریم نے واقعہ کو اپنے معجزانہ کلام میں سورة فیل میں اس طرح بیان کیا ہے ترجمہ کیا تُونے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا کیا اس نے انکی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا ان پر پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے پھر ان کا یہ حال کر دیا
جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ” سورة الفیل )

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی