سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے بارے میں حکومت کی پالیسی مانگ لی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں یہ جواب نہیں چلے گا کہ گمشدہ فرد ہمارے پاس نہیں۔ لاپتہ افراد طالبان کے پاس ہیں تو ہم ان سے بھی پوچھ لیں گے۔
سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جواب نہیں چلے گا کہ جس کے بارے میں بھی پوچھیں جواب ملتا ہے ہمارے پاس نہیں۔ لاپتہ افراد حکومت کے پاس نہیں ہیں تو بتا دیں کس کے پاس ہیں۔ طالبان کے پاس ہیں تو عدالت ان سے بھی پوچھ لے گی۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ عدالت انتہائی اقدام کی طرف جائے گی تو کیا یہ اچھا ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ لاپتہ افراد کے ساتھ کیا کارروائی ہوئی۔ اٹارنی جنرل تسلیم کر چکے ہیں لاپتہ لوگوں کی تلاش حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ حکومت سے بات کی جائے اور تمام لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات پیش کی جائے۔ اگر کوئی لاپتہ شخص مجرم ہے تو اسکے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔ ورنہ عدالت کیس ٹو کیس اداروں کے افسران کو بلا کر پوچھے گی۔
پشاور ہائیکورٹ میں بھی لاپتہ افراد کا معاملہ گرم ہے۔ دو سو چون لاپتہ افراد کے مقدمے میں جسٹس مظہر عالم نے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ طارق حیات اور ونگ کمانڈر عرفان اللہ کی سخت سرزنش کی۔ اور کہا کہ عدالتوں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ چار سال تک کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کا باپ یا بھائی کہاں ہے۔ چار سال بعد اچانک لاش کہاں سے آجاتی ہے ؟ لاپتہ افراد کی فہرست نہ ہونے پر ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے جھاڑ بھی کھائی۔ ونگ کمانڈر نے حساس اداروں کی جانب سے لاپتہ افراد کی فہرست کیلئے مہلت مانگ لی۔ مقدمے کی سماعت سترہ ستمبر کو ہوگی۔