تحریر : افتخار حسین افتی 6 جنوری اور قاضی حسین احمد 2013 ء کے بعد ہمیشہ یاد رہیں گے صدیوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے روزانہ لاکھوں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ان کے آنے سے دنیا میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے نہ ان کے جانے پر چند عزیزوں کے سوا کسی کی آنکھ نم ہوتی ہے۔ لیکن بعض لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے ہیں تو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں وہ جب تک زندہ رہتے ہیں اپنے ساتھ ایک دنیا کو لیکر جیتے ہیں اور جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو کروڑوں دلوں کو غمزدہ کر جاتے ہیںقاضی صاحب اُنہی لوگوں میں سے تھے ان کی محبت سرحدوں اور زبان و نسل سے ماورا تھی انہوں نے بغیر کسی تفریق کے اپنی محبتیں نچھاور کیںاور اس کے بدلے میں وہ عزیز جہاں ٹھہرے آج قاضی صاحب ہم میں نہیں لیکن ان کی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیںقاضی حسین احمد ایک اُمت کا درد محسوس کرنے والے انسان تھے قاضی حسین احمد کو اہل قلم حضرات نے ان کے دل میں امت مسلمہ کے درد کو محسوس کرنے پر شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
قاضی حسین احمد اہلِ قلم کی نظر میں اوریا مقبول جان کالم نگار قاضی صاحب کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے والد کے بعد دوسری دفعہ ایک شدید محبت کرنے والے ، دُعا گو اور ہمدرد سے محروم ہو گیا ہوں ایسے لگتا ہے جیسے کمرے کی ایک چھت تھی جو اُڑ گئی ہے اور میں کھلے آسمان تلے کھڑا ہوں آسمان بھی ایسا جہاں سے غیظ و غضب کی آندھیاں میرے ملک کے تعاقب میں ہیں۔ اتحاد اُمت کے حوالے سے کتنے دکھ تھے جوقاضی صاحب کتنی خاموشی سے میرے ساتھ گفتگو میں بیان کرتے ۔ کونسا مسلک ہے جس نے ان پر طنز کے تیر نہ پھینکے ہوں۔ لیکن محبت کے شہد میں ڈوبی اس زبان سے کبھی کوئی شکوہ نہ نکلا۔ اس شخص کا اس دنیا سے اٹھ جانا ایک المیہ ہے۔ موت برحق ہے لیکن نفس مطمئنہ کی موت خوش نصیبوں کو میسر آتی ہے۔
عرفان صدیقی مشیر وزیراعظم و کالم نگار قاضی صاحب بھی رُخصت ہو گئے ، دل نہیں مانتا کھری اور دوٹوک بات کہنے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی خوبی نے ان کی شخصیت کی طرح داری کا رنگ اور بھی گہرا کر دیا۔ بلا کے بے خوف اور نڈر انسان تھے بلا شبہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا تھی جو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے میں نے ان کی ذات میں اسلام ، قوم اور ملک کے لئے ہمیشہ بے پناہ اخلاص پایا یہ اخلاص درد بن کر ان کے دل میں سما گیا تھا۔
Mujeeb-ur-Rehman Shami
مجیب الرحمن شامی کالم نگار قاضی صاحب ایک پڑھے لکھے شخص تھے ان سے گفتگو کرتے وقت ایک خاص لطف محسوس ہوتا تھا۔ فارسی زبان پر ان کی نظر تھی عربی سے بھی آشنا تھے پشتو تو ان کی اپنی زبان تھی اور اردو پر انہیں خاص عبور حاصل تھا ان کا ذہنی اُفق خاصا وسیع تھا علامہ اقبال کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا علامہ اقبال کی شاعری جو پیغام دیتی ہے وہی پیغام قاضی صاحب کی رگ رگ میں رچا بسا تھا قاضی صاحب کی شخصیت کی تعمیر مولانا مودودی اور اقبال دونوں کے حوالے سے ہوئی تھی وہ دونوں کا مجموعہ تھے اور دونوں سے متاثر ہوئے ۔ خصوصاََ اقبال کا فارسی کلام جسے ایران اور افغانستان میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو انسان میں انقلابی جوش بھر دیتا ہے اقبال کی شکل میں قاضی صاحب کو ایک رہبر مل گیا تھا وہ ذاتی تعلُق بناتے تھے لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے میری والدہ کا انتقال ہوا ان کا جنازہ قاضی صاحب نے پڑھایا ۔ میری بیٹی کانکاح بھی قاضی صاحب نے پڑھایا ۔ اسی طرح دیگر دوستوں اور میڈیا احباب کے ساتھ ان کا تعلُق استوار تھا۔ وہ دکھ دردمیں شریک ہوتے تھے۔
حسن نثار تجزیہ کار و کالم نگار میں نے قاضی صاحب کو بہت ہی مدبر سیاست دان پایا موجودہ سیاستدانوں میں سے تو کوئی قاضی صاحب کے سویں حصے کے برابر بھی نہیں قاضی صاحب کی شفقت اور محبت کو میں کبھی بھلا نہیں سکتا جب اللہ نے مجھے بیٹی سے نوازا تو میں نے سختی سے منع کیا کہ کوئی پیشہ ور مُلا میری بیٹی کے کان میں اذان نہ دے میں خود اذان دونگا مجھے اُس وقت اذان زبانی یاد نہیں تھی اگلے دن صبح میں ساری اذان یاد کر چکا تھا اللہ کو یہ منظور تھا کہ کہیں قاضی صاحب نے گھر پر فون کیا اور ملازم نے انہیں بتایا کہ میں ہسپتال میں ہوں قاضی صاحب سمجھے کہ شاید میں بیمار ہوں وہ کلینک میں تشریف لائے تو میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ کتنی خوش بخت ہے ہماری بیٹی ! میرے پسندیدہ ترین آدمی تشریف لائے ہیںاب میں اذان نہیں دوں گا اس طرح قاضی صاحب نے میری بیٹی کے کان میں اذان دی اور مجھے مبارکباد دی
حامد میر اینکر و کالم نگار 5 اور 6 جنوری کی درمیانی شب قاضی حسین احمد ہم سے جدا ہو گئے صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی تو موبائل فون پر ان کی وفات کا پیغام پڑھ کر آنکھوںمیں آنسو اُمنڈ آئے مجھے وہ دن یاد آئے جب وکلاء تحریک کے دوران جیو ٹی وی کے دفتر پر حملہ ہوا اور اگلے دن قاضی صاحب مجھے کہہ رہے تھے گھبرانا نہیں میں تمھارے ساتھ ہوں ان کا دنیا سے جانا صرف ان کے اہل خانہ اور جماعت اسلامی کیلئے نہیں ، میرے سمیت لاتعداد پاکستانیوں کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے قاضی صاحب ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ALLAH
انصار عباسی صحافی و کالم نگار وہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے اور اسلامی اُمہ کے اتحاد کے داعی تھے دنیا میں کہیں بھی اسلامی تحریک چلتی اور کامیاب ہوتی اس پر قاضی صاحب فخر کرتے اور جہاد کرنے والوں کی کھلے عام حمائت کرتے۔اسلامی جماعتوں اور علمائے کرام کے خلاف کبھی کوئی بات نہ کرتے بلکہ اُن کی زندگی میں ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اسلامی سوچ رکھنے والے اپنے باہمی اختلافات بھلا کر ایک اللہ اور رسول پاک ۖکی تعلیمات کی روشنی میںمل کر اسلام دشمن قوتوں کا سامنا کریں اور آپس کے تنازعات کو ختم کریں۔میری اللہ سے دعا ہے کہ اے رب کریم !قاضی صاحب کے اعمال کو قبول فرما اور قاضی صاحب کی طرح ہمیں بھی اپنے دین کے کام کیلئے چن لے آمین۔
سلیم صافی اینکر و کالم نگار قاضی حسین احمد میدان سیاست میں میری پہلی محبت کا درجہ رکھتے تھے اور اللہ پاک نے مُجھے اُن لوگوں کی صف میں بھی شامل کر دیا جنہیں رحلت کے بعد سب سے پہلے اُن کی زیارت نصیب ہوئی اُن کے مبارک چہرے پر نظر پڑتے ہی اُن کے ساتھ وابستہ یادیں ذہن میں اُمنڈ آئیںمُجھے دورِ طالب علمی کا وہ وقت یاد آگیا جب ہم نعرے لگاتے تھے کہ ” ہم بیٹے کس کے ؟ قاضی کے ، دیوانے کس کے ؟ قاضی کے ، پروانے کس کے ؟ قاضی کے پھر مُجھے اُن کے حوالے سے اپنی ایک ایک گستاخی یاد آ رہی تھی ۔ اُن پر کرنے والی شدید تنقید ذہن میں تازہ ہو رہی تھی اور اُس کے جواب میں اُن کی وہ محبت اور شفقت یاد آ رہی تھی جس کامظاہرہ وہ عمر بھر کرتے رہے اِس روز جب میں ان کی میت کے ساتھ کھڑا اُن کے چہرے کی زیارت کر رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آج صرف آصف لقمان نہیں بلکہ شاید میں خود بھی دوبارہ یتیم ہو گیا تھا سچ تو یہ ہے کہ اس رشتے کو ختم کرنے میں شاید میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، لیکن یہ اُن کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس رشتے کو نبھاتے رہے۔
فریحہ ادریس اینکر و کالم نگار قاضی حسین احمد بھی رُخصت ہوئے اور پاکستانی سیاست جس کے دامن میں پہلے ہی کھرے اور سچے رہنما خال خال نظر آتے ہیں ایک اصول پسند ، معتدل ، روشن خیال سیاسی مدّبر سے محروم ہو گئی ۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے وہ واحد رہنما تھے جن کے نام سے ایک عام غریب پاکستانی بھی واقف تھا قاضی صاحب پر خود کش حملہ ہوا تو سن کر یقین نہ آیا کہ قاضی حسین احمد جیسی مذہبی ،اعتدال پسند ، دھیمے مزاج کی شخصیت سے بھلا کس کو دشمنی ہو سکتی ہے قاضی حسین احمد پر ہونے والے حملے نے مجھے اور میرے جیسے کئی لوگوں کو یہ احساس دلایا تھا کہ کہ قاضی صاحب جیسے نایاب ،سچے اور روشن ستارے کی چمک ختم ہونے سے ہماری سیاست اندھیری اور ویران ہو جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
Dr. Shahid Masood
ڈاکٹر شاہد مسعود اینکر و کالم نگار اس قدر شدت سے شاید ہی کبھی قاضی حسین احمد کی کمی محسوس کی جا سکے ، جتنی ان لمحات میں ، جب خونریزی پہ تُلے طاقت کے نشے میں چُور بد حواس سیاست دان اور حکمران ایک ڈوبتی ریاست کو جلد از جلد غرق کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں!علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم جن کی صرف مسکراہٹ ہی مخالفین کو اسیر کرنے کیلئے کافی ہوا کرتی تھی اور اب قاضی حسین احمد ! رُخصت تو ہم سب کو ایک دن ہونا ہے اور قاضی صاحب بھی ایک بھرپور کامیاب زندگی گذار کر اک جہاں کو غمزدہ کر گئے۔
جاوید چوہدری اینکر و کالم نگار قاضی صاحب چلے گئے ، لیکن ان کی شفقت اور ان کی کلمہ گوئی کی عادت ہمیشہ زندہ رہے گی یہ کبھی نہیںمرے گی کیونکہ مرتے صرف لوگ ہیں ان کی اچھی عادتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور قاضی صاحب کی عادتیں اُنہیں ہماری ذات میں ہمیشہ قائم رکھیں گی اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔