تحریر : عماد ظفر وطن عزیز میں سب سے آسان اور منافع بخش کاروبار مذہب کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے کا ہے. پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک مشہور پیر صاحب کے بیٹے کی شادی کی تقریب اکثر حلقوں میں زیر بحث رہی. محتاط اندازے کے مطابق اس شادی پر اٹھنے والے اخراجات قریب ایک ارب روپے کے لگ بھگ تھے. شادی میں ملک کے طاقت کے ستونوں کے تمام باآاثر شخصیات شریک تھیں.اگر کوئی شریک نہیں تھا تو وہ پیر صاحب کے عام سے مرید تھے.جن کی نظر نیاز کی وجہ سے پیر صاحب کیلئے ممکن ہوا کہ وہ اپنے فرزند کی شادی پر اتنا دھن لٹا سکے. یہ پیر صاحب رالپنڈی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں. سیاسی طور پر بھی بہت با اثر ہیں.مشرف دور میں پرویز مشرف کا شمار بھی ان کے عقیدت مندوں میں ہوتا تھا.راولپنڈی سے جیتنے اور ہارنے والے عوامی نمائندوں کو بھی ہمیشہ ان پیر صاحب کی تائید کی اشد ضرورت رہتی ہے۔
یہ واقعہ مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کے اس بھیانک چہرے کی جھلکی دکھاتا ہے جس پر ہم کبھی صحت مند مباحثہ اور عوامی آگاہی کی کوئی مہم شروع نہیں کرتے. ملک کے گوشے گوشے میں مختلف قسم کے پیر حضرات تشریف رکھتے ہیں. جو اپنی “کرامات” کے بل پر ہر گلی کوچے میں مریدین بھی رکھتے ہیں. ان مریدین کیلئے پیر کی کہی ہوئی ہر بات ایک آخری حکم کا درجہ رکھتی ہے یوں یہ پیر حضرات عقیدت اور تصوف کو استعمال کرتے ہوئے آستانے بناتے ہیں اور اس کے بعد ایک آسان اور مستقل کمائی آنے والی نسلوں تک منتقل کر جاتے ہیں ، جس کا کہ نہ تو کوئی آڈٹ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔
ٹھیک جیسے ملا یا مدارس اپنے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے عام آدمی اور مذہب کا استعمال کرتے ہیں بالکل ویسے ہی یہ پیر حضرات اپنے اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں. آستانوں پر مریدین کو دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑنے اور فنا فی الہ کا درس دیتے یہ خود ساختہ پیر انتہائی سکون سے تخلیئے میں بلکہ زیادہ تر حضرات تو سرعام تمام آسائشوں اور آلائشوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں. زکات چندہ خیرات جو کہ نذر نیاز اور چڑھاوے کے نام پر انہیں وصول ہوتی ہیں ان سے یہ حضرات نہ صرف بڑے بڑے کاروبار چلاتے ہیں بلکہ اپنی اولادوں کو بھی اپنا جانشین بنا کر گدی سونپنے کے بعد وراثتی کاروبار کی شکل بخش دیتے ہیں۔
Life
یہ کاروبار محض پیسہ بنانے پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ مریدین کی ذاتی زندگی کے فیصلوں سے لے کر ان کی ذہن سازی تک میں یہ کاروبار کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں کرٹکل تھنکگ اور آبجیکٹو تھنکنگ ویسے ہی ناپید ہیں اور اگر کوئی خوش قسمتی سے ان نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھی جائے تو یہ پیر حضرات انتہائی آسانی سے انہیں سوچ اور عقل سے محروم کر دیتے ہیں.اکثر پیروں کے آستانوں پر منشیات کا بےدریغ استعمال بھی ہوتا ہے. کتنی ہی دفعہ ہم سب خبروں میں دیکھتے یا پڑھتے بھی ہیں کہ ایک پیر نے کسی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کر ڈالی.یا جن نکالنے کے چکر میں بچی یا بچے کی روح ہی نکال دی. دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی پیر سے اس حوالے سے بات کیجئے تو وہ فورا کہے گا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں کرتے یہ تو چند جعلساز ہیں جو اس مقدس کام کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں. حالانکہ زیادہ تر پیر حضرات پورا دن سوائے بستر پر سستانے ڈکاریں مارنے اور مریدین پر پھونکیں مارنے کے علاوہ کوئی بھی کام نہیں کرتے۔
پیری فقیری کا یہ کاروبار بھی دنیا کے دیگر کاروباروں کی طرح درمیانے معیار اور اعلی معیار کا ہوتا ہے درمیانی معیار کے اس بزنس میں شکار یعنی مرید پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اسے صرف اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ جادو ٹونے کا شکار ہے .اس کے بعد سنگدل سے سنگدل محبوب ہو یا بیرون ملک ویزہ یا پھر کوئی دشمن سب کو آپ کے قدموں میں لانے کا وعدہ کر کے خوب نذر نیاز بٹور لی جاتی ہے. اولاد نہ ہونے کا سبب بھی دیور نند یا کسی رشتہ دار کو بنایا جاتا ہے۔
یوں محبت کا دم بھرتے یہ چورن فروش انتہائی کامیابی سے رقمیں بٹورنے کے علاوہ نفرتوں کا زہر بھی باآسانی رشتوں میں گھولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں .بڑے لیول کا پیری فقیری کا بزنس ملٹی نیشنل یا فارچون کمپنیوں کی مانند چلتا ہے. اس میں وراثت در وراثت چلتی آ رہی گدی لاکھوں کڑوڑوں کمزور عقیدے والوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے. ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح ان پیروں نے آستانے میں ہی مختلف مینجرز بھرتی کیئے ہوتے ہیں.جادو ٹونہ اور دوسرے تمام عام چورن بیچنے کیلیۓ عام سا مینیجر کافی ہوتا ہے. دوسرا نمبر آتا ہے۔
Pir
ان پڑھے لکھے افراد کا جو فکری خلا کو پر کرنے کیلئے ان آستانوں کا رخ کرتے ہیں ایسے حضرات کو زرا پڑھے لکھے قسم کا مینیجر ڈیل کرتا ہے اور چورن اپنی ذات کو فنا کر دینے کا بیچا جاتا ہے. یہ حضرات کیونکہ پہلے سے ہی قدرت الہ شہاب ممتاز مفتی یا اشفاق احمد کو پڑھ چکے ہوتے ہیں اس لیئے باآسانی قابو کر لیئے جاتے ہیں. تیسری قسم گناہ کے بعد پیدا ہونے والے گلٹ سے بچنے کیلئے فرار کی راہ اختیار کرنے والوں کی ہوتی ہے. اس قسم میں طاقت کے ایوانوں سے لیکر سرکاری منشی اور اشرافیہ کے بگڑے ہوئے بچے شامل ہوتے ہیں .اس کٹیگری کو بڑے پیر صاحب خود ڈیل کرتے ہیں اور ان کو پھونکیں بھی مینیجرز کے بجائے بڑے پیر صاحب کی ہی نصیب ہوتی ہیں. چوتھی قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں ہر قیمت پر مشہور افراد سے تعقات بنا کر حلقہ احباب اور برادری میں شو آف کرنا ہوتا ہےلہازا بچوں کے ختنے ہوں یا عقیقے ،مرگ یا خوشی، پیر صاحب کی بنفس نفیس حاضری ضروری ہوتی ہے. آخری قسم سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہوتی ہے جنہیں اپنے اپنے حلقے میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے پیر صاحب کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے۔
یوں پہر صاحب کا اپنا نیٹ ورک بھی مضبوط ہو جاتا ہے اور ارباب اختیار کا بھی. چونکہ یہ دھندہ بھی عقیدت کے نام پر کیا جاتا ہے اس لیئے مقدس ہستیوں اور لوگوں کے ناموں کا خوب استعمال کیا جاتا ہے. درود اور میلاد کی محفلیں منعقد کروا کر اس دھندے کو مقدس گائے کی سی حیثیت دے دی جاتی ہے. اس انڈسٹری کا سب سے بڑا جرم زکوۃ اور خیرات کے نام پر اربوں روپے بٹورنے کے علاوہ ایک خاص اور جذبات سے بھرے اذہان پیدا کرنا اور ان کی افزائش بھی ہے. جن اولیا کے ناموں پر یہ آج کل کے ڈبہ پیر چورن بیچتے ہیں وہ اولیا ہرگز بھی ان جیسے نہیں تھے۔
Data Darbar
داتا صاحب خواجہ معین الدین چشتی شاہ شمس تبریز بابا بلھے شاہ یا ان جیسے سینکڑوں بڑے نام اپنے اپنے دور کے انسانی حقوق کے علمبردار تھے فلاسفرز تھے آرٹ شاعری کی صنف کے ماہر تھے. وہ لوگ محض پھونکیں مار کر یا گدی پر سارا دن بیکار بیٹھ کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سبق کسی کو بھی نہیں دے کر گئے. عقیدت کی پٹی اس معاشرے میں جان بوجھ کر اوڑھائی جاتی ہے تا کہ سوچ آور دلیل کی قوت استعمال نہ ہونے پائے نتیجتا مریدین کی نذرو نیاز کے محتاجوں کی شادیاں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے دھوم دھڑلے سے ہوتی ہیں اور دوسری جانب غریب مریدین کے بچے کبھی بھوک اور کبھی بیماریوں سے پیسہ نہ ہو جانے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔