حضرت نظام الدین اولیا اکثر ایک جملہ فرمایا کرتے تھے”ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا۔ اتنا فرما کر پھر غش کھا جاتے، ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا: حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑ ے دھو کر استری کرکے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے، ان کا ایک بیٹا بھی تھاجو جوان ہوا تو کپڑ ے دھونے میں والدین کا ہاتھ بٹانے لگا، کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑ ے بھی تھے جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا،
محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعداس کے اطوار تبدیل ہو گئے، وہ شہزادی کے کپڑے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا، اورپھر استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کرکے رکھتا، سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا، یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے، والد نے بیٹے کے کپڑ ے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا، مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا لیا گیا تو لڑکا بیمار پڑ گیا، اور چند دن کے بعد فوت ہوگیا۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا، اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟ دھوبن نے جواب دیا: شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں، شہزادی نے کہا: پہلے کون دھوتا تھا؟ دھوبن نے کہا: میں ہی دھوتی تھی، شہزادی نے اسے کہا: یہ کپڑا تہہ کرو. اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوئے جیسے ان کا بیٹاکرتا تھا۔ شہزادی نے اسے ڈانٹا: کہ تم جھوٹ بولتی ہوسچ سچ بتا ورنہ سزا ملے گی، دھوبن کے سامنے کوئی دوسرا رستہ بھی نہیں تھا کچھ دل بھی غم سے بھرا ہوا تھا، وہ زار و قطار رونے لگ گئی، اور سارا ماجرا شہزادی کے سامنے بیان کر دیا شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آ گئی۔ پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی، اور مقتول محبت کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہاکہ وہ اس دھوبی کے بچے کی برسی پراس کی قبر پر پھول چڑھانے ضرور آتی۔
یہ بات سنانے کے بعد حضرت فرمانے: اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس کے کپڑ ے دھونے میں بروئیکار لا سکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اس کی نماز پڑھنے میں اسی طرح دل وجان سے نہیں استعمال کر سکتے؟ مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے، تو کیا رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز اور پیچھا چھڑانے والی نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟
حضرت نظام الدین اولیا پھر فرمایا: وہ دھوبی کا بچہ اس وجہ سے کامیاب ہے کہ اس کی محبت کو قبول کر لیا گیا، جبکہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں، قبول ہوگی یا منہ پر ماردی جائے گی، اللہ جس طرح ایمان اور نماز روزے کا مطالبہ کرتا ہے، اسی طرح محبت کا تقاضا بھی کرتا ہے. یہ کوئی مستحب نہیں فرض ہے. مگر ہم غافل ہیں.” پھر فرماتے: اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے بچے کا دل پھٹ گیا تھا، یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی،کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے.” آپ فرماتے:”یہ نسخہ اللہ پاک نے اپنے نبی کے دل کی حالت دیکھ کر بتایا تھا: کہ آپ نماز پڑھا کیجئے، اور رات بھر ہماری باتیں دہراتے رہیجئے، آرام ملتا رہے گا۔
Junaid Raza
تحریر : جنید رضا ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com فون نمبر:0310-2238341 :03032972058