ہماری اس مہم کا مقصد بچوں میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ جن کھلونا ہتھیاروں سے وہ کھیلتے ہیں یہ صرف کھلونے نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بچوں کا برین ڈویلیپ کر رہے ہیں اصل ہتھیاروں سے ملتے جلتے اور مشابہہ کھلونے استعمال کرنے والے بچے ان لوگوں کو ہیرو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جو اصل ہتھیار چلاتے ہیں۔ کچے ذہن رکھنے والوں بچوں کو کھلونا پسٹل، گن، رائفل وغیرہ معاشرے میں ناہمواری اور انتشار کا سبب بنتے ہیں کیونکہ پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں کھلونا ہتھیار کی فروخت اور مانگ میں بے پناہ اضافہ معاشرے کے منفی پہلو اور رویے کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی جو آجکل بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کا گڑھ بن چکا ہے اس شہر بے امان میں بچوں کے کھلونا ہتھیاروں کے خلاف ایک این جی او ” پرسکون کراچی” کی جانب سے ایک انوکھی مہم شروع کی گئی وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز اس مہم کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس بھی منقعد کی گئی جس کا عنوان ”ہتھیار نہیں پیار” تھا۔ اس مہم میں منفرد انداز میں ہتھیار نما کھلونوں کو تلف کرنے کیلئے پلاسٹک اور دیگر میٹریل کی مدد سے بنائے گئے کھلونوں کو شرکاء نے اپنے ہاتھوں سے توڑا اور پھر ان پر روڈ رولر چلا کر اس مہم کا آغار کیا گیا۔ مہم کے شرکا ء نے اس عمل کے بعد باآواز بلند قومی ترانہ بھی پڑھا اور پھر ”ہتھیار نہیں پیار” کا پرشگاف نعرہ بھی فضاؤں میں بکھیرا۔
اس منفرد مہم کیلئے ٹیم نے سرکاری و پرائیویٹ سکولوں کا وزٹ بھی کیا اوور بچوں سے کھلونا ہتھیار لے کر ان کو دوسری قسم کے کھلونے تحفے میں دیئے۔ علاوہ ازیں کھلونا پستول، چاقو، بندوق وغیرہ بیچنے والوں کو بھی اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ آئندہ اس قسم کے کھلونے فروخت نہ کریں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے اس عمل کو ہر سطح پر سراہا گیا اور مثبت انداز میں پذیرائی ملی اور بعض شہریوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اس مثبت عمل کو پھیلانے میں تعاون کا یقین دلایا۔ کراچی جیسے شہر میں تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے تدارک اور معصوم بچوں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رحجان کو کم کرنے یا ختم کرنے این جی او کردار ایک خوشگوار سنگ میل ثابت ہو گا اور امید واثق ہے کہ اس مثبت عمل سے کراچی شہر کے افراد کو امن سکون خوشی ملنے کا قوی امکان پیدا ہو گاـ
Children WithToy Weapons
بچوں میں تشدد کے رحجان کے بڑھنے کی رفتار نہایت حد تک بڑھ چکی ہے اور رحجان بے حسی اور نامناسب رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ کل تک بچوں کو ڈرایا جاتا تھا کہ چھری سے مت کھیلو۔ انگلی کٹ جائے گی۔ اس آگاہی اور تنبیہ پر بچے ڈر جاتے تھے لیکن آج کا بچہ چھری کیا پستول دیکھ رہا ہے گولی چلتی دیکھ رہا ہے خون بہتا دیکھ رہا ہے اور ان مناظر میں اس کیلئے ڈر کہیں نہیں۔ چنانچہ وہ عادی ہوتا جارہا ہے۔ ماحول میں رچتا بستا جارہا ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں خود کو ملوث کرتا جا رہا ہے۔ اس سے بھی آگے وہ فلموں، ڈراموں شوز اور ویڈیو گیمز میں دکھائی جانیوالی قتل کی واردات کی منصوبہ بندی کی بغور دیکھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس کا اثر بھی براہ راست قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تشدد کے چھوٹے بڑے تمام مناظر ان کے ذہنوں پر نقش ہو رہے ہوتے ہیںـ
ہمارے اپنے گھروں میں بچوں کی تعلیم کو تو بے پناہ حساسیت دی جاتی ہے کہ سکول سے چھٹی نہ ہو جائے کالج مس نہ ہو جائے۔ مارکس کم نہ رہ جائیں لیکن تربیت کا کوئی ذریعہ اور نظام نہیں دکھائی دیتا۔ کہ ان کے اذہان کو پرتشدد کارروائیوں کے خلاف تیار کیا جائے ان سے نفرت کرنے کی ترغیب دی جائے۔اگر ہم اپنے بچپن کا بنظر غایت جائزہ لیں تو ہمیں ہمارے والدین اور بڑے ایسی کہانیاں اور واقعات سناتے اور بتاتے تھے کہ جو انسانی اقدار و اخلاقیات کے درس سے بھرپور ہوتی تھیں۔ انسانی عزت و احترام جان و مال کی قدرو قیمت سے آشنائی کا موثر ذریعہ ہوتی تھیں۔ ایسا ماحول دردمندی، بھائی چارگی، دوستی، محبت، رحم اور اتفاق و اتحاد کے جذبات پیدا کرتا تھا لیکن اب ایسا ماحول ناپید ہو چکا ہے۔ آج کا بچہ اپنے بڑوں اور والدین سے کم، ٹی وی و انٹرنیٹ زدہ ماحول سے زیادہ سیکھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تشدد کے جذبات اور رحجانات شدت کے ساتھ پنپ رہے ہیں۔ پھر جب آٹھویں کلاس کا طالب کسی کو قتل کرتا ہے۔
میٹرک کے طلبا چیک پوسٹ پر پولیس اہلکار کے روکنے پر پسٹل سے فائر کر کے اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔ سکول میں چاقو اور خنجر کا بلا دریغ استعمال ہوتا ہے تو تعجب نہیں ہوتا بلکہ تاسف اور افسوس سے اپنی اور معاشرے کی بے حسی اور بے ثباتی پر کڑھتے رہتے ہیں۔ مغرب زدہ معاشروں میں تو اس قسم کی پریکٹس ہوا کرتی تھی لیکن اب مشرقی روایات کے حامل معاشرے بھی بری طرح سے اس لپیٹ میں آچکے ہیں۔ لہذا ان تنظیموں کے ساتھ ساتھ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ماحول سے اپنے بچوں کو بچائیں۔ منفی ماحول اور رویوں کے مضر پہلوؤں کا احاطہ کریں کیونکہ جب تک والدین بچوں میں انسانی صفات پیدا کرنیوالی کا ماحول اور معاشرہ تخلیق نہیں کریں گے تو حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے اور پھر تباہی و بربادی سے ان کوئی نہیں بچا سکے گا۔