یوم محبت۔۔۔۔۔۔ میرے مطابق……!!

Love Day

Love Day

چودہ فروری کو یوم محبت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔دیگر بہت سی خرافات کے ساتھ اب اسلامی و فلاحی ریاست پاکستان میں بھی اس دن کو منایا جانے لگا ہے۔

مجھے بعض لوگوں کی یہ بات کہ ماس میڈیا مادر پدر آزاد ہے اس وقت سچ لگنے لگتی ہے جب میں یوم محبت کے پروگرامز کو تو دن بھر چلتے دیکھتا ہوں مگر امریکی قونصل خانے کی گاڑی کی ٹکر سے شہید ہونے والے نوجوان مزمل شاہ اور زخمی ہونے والے نوجوان شاہ زیب کے صرف “ticker” چل رہے ہوتے ہیں، “race 2” کی تشہیری مہم تو کئی کئی ہفتے جاری رہتی ہے مگر غلطی سے سرحد پار کر جانے والے پاکستانی فوجی کی بھارتی سورمائوں کے ہاتھوں شہادت پر تیس سیکنڈ کی خبر چلتی ہے۔

میں اس ملک کے میڈیا کی بات کر رہا ہوں جس ملک کے غریب تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں مگر اس ملک کا وزیر اعظم لندن میں اسی غریب کے کروڑوں روپے اپنی عیاشیوں کی نذر کر رہا ہے۔

یوم محبت کا جس قدر اہتمام پاکستانی میڈیا نے کیا اس سے تو یہ لگتا ہے کہ پوری قوم نے خوب جوش و خروش سے اس دن کو منایا اور بھر پور انجوائے کیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عام آدمی کو تو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں۔

جس کے پاس عید پربھی اپنے بچوں کیلئے نئے کپڑے خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے اسے کیا خبر کہ یوم محبت کیا ہے، کب آیا، کب گزر گیا۔ پانچ فیصد کے عمل کو پچانوے فیصد کا عمل ظاہر کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی گئی۔ دراصل ہمارے اذہان اب بھی غلام ہیں۔

ہم اپنے آقائوں کی قدم بوسی میں فخر محسوس کرتے ہیںاور ان کی پیروی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں جُتے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں محبت کا درس کیا دیں گے جو اپنے کتے کو تو ساتھ سلاتے ہیں مگر اپنی ماں کو اولڈ ہائوس میں چھوڑ آتے ہیں۔

Valentine Day

Valentine Day

کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو بنا جنگ کے مغلوب کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں کو تعیشات میں الجھا دو۔ بغور جائزہ لیا جائے تو ہم بھی اسی سازش کا شکار نظر آتے ہیں۔شرم و حیا جس معاشرہ کی اعلیٰ رویات میں سر فہرست تھی ، اب وہاں کا نوجوان ویلنٹائنز ڈے منا کر خود کو مہذب خیال کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا واسطہ بہت عیار دشمن سے پڑا ہے۔

مگر ہم کب تک فحاشی کو جدت کا غلاف اوڑھا کراپناتے چلے جائیں گے؟ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟ جب پانی سر سے گزر جائے گا؟ جب واپسی کے تمام راستے بند ہو جائیں گے؟ کیا ہم یونہی اپنی روایات و اقدار کو قدامت پسندی کا نام دے کر تاریخ کی کتابوں تک محدود کر دیں گے؟نہیں، ہر گز نہیں۔

ہمارے نوجوان کو فحش روایات اور تعیشات کو چھوڑ کر ملکی ترقی کے لئے تن من دھن کی بازی لگانا ہو گی، اپنی تمام تر توانائی کو تعلیم کے میدان میں صرف کر کے ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھنا ہو گی،اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے خواب غفلت سے بیدار ہونا ہو گا۔

ملک میں موجود دہشتگردی کے خلاف کھڑے ہو نا ہو گا، کرپشن کے عفریت کے سامنے دیوار بننا ہو گا، مغرب زدہ ہونے اور اس پر فخر کرنے کی بجائے اپنی اقدار کو پہچاننا ہو گا۔ صرف اسی میں ہماری بقا کا راز پنہاں ہے۔

Tajamal Mehmood

Tajamal Mehmood

تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428