تحریر : وقار انساء انسان کی نفسیات کچھ عجیب ھی ہے وہ کسی حال مین خوش نہین رہتا کبھی قدرت کے لکھے پر شاکر نظر نہیں آتا کبھی کس محرومی پر اللہ سے گلہ کرتا نظر آتا ہے تو کبھی رشتوں کی ناقدری کارونا روتے ہوۓ د کھائی دیتا ہے کبھی معاشرتی ناھمواریاں اس کے لئے پریشانی کا باعث ھوتی ھيں تو کبھی مادیت پرستی اس سے اس کا سکون چھین لیتی ہے بعض اوقات اسکا احساس برتری لوگون کے ساتھ گھل مل کر رہنے میں اس کے لئے رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے اور وہ متکبر ھو جاتا ہے حالانکہ اللہ رب العزت نے اس کو نا پسند کیا ہے۔
اس طرح وہ اپنی خود ساختہ پریشانیوں کا بوجھ اپنے آپ پر ڈال لیتا ہے اور سکون کے لمحے خود پر حرام کر بیٹھتا ہے کبھی جائز و ناجائز ذریعے سے دولت اکٹھی کرنا چاہتا ہے تو کبھی دنيوی آسائشیں اس کی پریشانی کا سبب ہوتی ہيں قناعت اور توکل سے دوری ان پریشانیوں کا پیش خیمہ ہے گھریلو سطح پر ديکھا جائے تو پریشانیوں کی نوعيت کچھ اور رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
ھمارے دوہرے رويے ھمیں زندگی ميں چين نہیں لينے ديتے قول اور عمل کا تضاد بے سکونی کا باعث بن جاتا ہے بہت پيارے اور حقيقی رشتے دوغلی پاليسی کی بھينٹ چڑھ جاتے ہيں ليکن ان سب باتوں سے ہم نصيحت نہيں پکڑتے اس ميں کوئی شک نہيں کہ گزرتے وقت نے رشتوںکی مٹھاس کو ختم کر ديا ھے گھر ھو یا خاندان عزيز و اقارب ھوں یا دوست احباب نيتون کے کھوٹ ہی دکھائی ديتے ہيں اور ايسی ھزاروں مثالين سامنے آتی ہیں کہ بعض اوقات آپ کے اپنے ہی آپ کیے گھر کی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں ميٹھی چھری بن کر ظاہری پيار سے آہستہ آہستہ آپ کی جڑوں کو کھوکھلا کر ديتے ہيں۔
Anxiety
معاشرتی قدروں کی پامالی ہر سطح پر نظر اتی ہے ناانصافی اور بے حسی جس کا رونا حکومتی سطح پر نظر آتا ہے محدود پیما نے پر گھر اور خاندان اس سے متاثر دکھائی ديتے ہیں یہی انسان کی تباہی اور بربادی کی ابتداء ہے جس کی لاٹھی اس کی بھينس کے مصداق جسکے پاس اختيار ہے اس کی ہر جائز اور ناجائز بات درست ہے حالانکہ گھريلو ماحول میں بہتری کے لئے ذمہ داری بھی بڑی اٹھانی ہوتی ہے اس مين انسان کو بہت دفعہ اپنی ذات کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے چھوٹے رشتوں سے شفقت اور محبت کا برتاؤ ان کی نظر مين آپ کے رشتے کو بڑا تسليم کر کے آپ کی اہميت اور قدر بڑھاتا ہے۔
ايک ہی گھر ميں ہر رشتے سے برتاؤکے الگ فارمولے نظر آنے لگیں تو انہی باتوں سے گھر اور گھر کے سکون برباد ہو جاتے ہيں اوران حالات کا ذمہ دار خود انسان ہی ہے جس رشتے کی محبت دل سے محسوس نہ کی جائے اور بناوٹ کا سہارا لينا پڑے ان سے کيونکر آپ محبت کی اميد رکھ سکتے ہيں سچی محبت پھر آپ کو بھی نہيں مل سکے گی ايسے ميں پھر تقدير کی خرابی کا گلہ کرنا زيب نہيں ديتا کيونکہ یہ حالات آپ کے خود پيدا کردہ ہيں۔
وقت کے ساتھ انسان کو ڈھلنا چاہيے اگر یہ ہی سمجھ ليا جائے جوانی سے بڑھاپے تک ان ہی طریقوں سے زندگی گزارين گے تو یہ ناممکن ہے جھوٹے پيار کا یہ امرت اب امرت نہين بلکہ زھر بن جائے گا کاش ہم لوگ تصنع اور بناوٹ کا لبادہ اتار پھينکيں اور جو ہيں وہی نظر آئيں اگرہماری خامياں ہميں یہ لبادہ اوڑھنے پر مجبور کرتی ہيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ان خاميون سے آگاہ ہيں اس لئے ہميں بناوٹ کا سہارا لينا پڑتا ہے انسان غور کرے تو اس سے اصلاح کا پہلو نکلتاہے کہ بجائے بناوٹ کا سہارا لينے کے اپنی خاميوں پر قابو پایا جائے اور وہ نصيحت جو ہم دوسروں کو کرتے ہيں خود بھی اس پر عمل کريں۔
Life
رویے کی لچک ٹوٹتے ہوئے رشتوں کو جوڑ دیتی ہے کبھی بھی کوئی انسان سو فیصد پرفیکٹ نہین ہوتا اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیون پر بھی نظر رکھیں حقیقی دنیا مین رہین اللہ کا شکر ادا کریں اوراپنی خوساختہ پریشانیوں پر غور کریں ان کو زندگی سے دور کریں یہی آپ کے حقیقی سکون کا ذریعہ ہے۔