لاہور: ابو ظبی (یو اے ای) سے تشریف لائے ہوئے مشہور و معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار طارق حسین بٹ کی پہلی کتاب عشقِ لازوال کی رسمِ رونمائی کی تقریب یکم دسمبر کو لاہور میں سر انجام پائی تھی۔ اس تقریب کے انعقاد کا سہرا مجلسِ قلندرانِ اقبال کے صدر محمد ظہیر الدین بابر کے سر تھاجن کی شبانہ روز کاوشوں نے اس تقریب کو یادگار بنا دیا۔ محمد صدیق القادری جو کہ ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اور عشقِ لازوال کے مصنف طارق حسین بٹ کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے اپنے ماہانہ رسالے یوتھ انٹرنیشل فورم کے پلیٹ فارم سے اپنے دوست کی اس پہلی کاوش پر ان کے اعزاز میں ایک خوبصورت شام کا انعقاد کیا تا کہ عشقِ لازوال کی خوشبو سے پورا پاکستان معطر ہو جائے۔
یہ تقریب پنجابی کمپلیکس لاہور میں انعقاد پذیر ہوئی جس میں ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والی قد آور شخصیات کی شرکت نے اسے اور بھی معتبر بنا دیا۔یوتھ انٹرنیشنل کے چیرمین صدیق القادری نے اپنے دوست طارق ادبی کاوشوں کی پذہرائی کیلئے جس خوبصورت شام کا اہتمام کیا جس میں پاکستان کے نامور ادباء نے شرکت کر کے تقریب کو مخصوص ادبی رنگ میں رنگ دیا۔عوام کی بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کر کے تقریب کو مزید چار چاند لگا دئے ۔ مقررین کا اند ازِ خطابت اور عوام کی چا ہت اس تقریب کا حسن تھا جس کی وجہ سے یہ تقریب ہر لحاظ سے شاندار اور منفرد بن گئی۔ اس تقریب کو اپنے اعلی انتظامات اور حاضرین کی زندہ دلی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
تقریب کے میزبان محمد صدیق القادری نے اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طارق حسین بٹ یو ا ے ا ی کی نامور ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں اور کیمیونیٹی کی فلاح و بہبود کیلئے انتہائی متحرک ہیں ۔پاکستان سے جو وفد بھی ابو ظبی جاتا ہے طارق حسین بٹ اس کیلئے کسی نہ کسی تقریب کا اہتمام کر کے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ان کی پہلی تصنیف عشقِ لازوال آج کل علمی اور ادبی حلقوں میںاپنے موضوعات کی تنوع پسندی کی وجہ سے موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے اور اسے عوامی حلقوں میں زبردست پذیرائی نصیب ہو رہی ہے یہ سات رنگوں سے سجی ایسی قوس وقزع ہے جس میں قاری اپنی پسند کے رنگوں سے اپنے من میں روشنی اکٹھی کر سکتا ہے۔ عشقِ لازوال اگر چہ مصنف کی پہلی کتاب ہے لیکن اسے پڑھنے کے بعد ہر گز یہ احساس نہیں ہوتا کہ عشقِ لازوال طارق حسین بٹ کی پہلی تصنیف ہے بلکہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طارق حسین بٹ اس سے قبل کئی کتابیں تحر یر کر چکے ہیں۔صدیق القادر ی کا مزید کہنا تھا کہ نفسِ مضمون پر طارق حسین بٹ کی گرفت سے تو برسوں کا تجربہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی ا، ناصر ادیب، ڈاکٹر صغری صدف،منصور عارف اور آصف محمود جاہ جیسے بڑھے لکھا ریوں سے دادو تحسین نے اس کتاب کی قدرو منزلت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے اور ہر کوئی اس کتاب سے فیضیاب ہونے کیلئے بے چین ہے۔میری دعا ہے کہ عشقِ لازوال آنے والے دنوں میں ادرو ادب کا گراں مایہ سرمایہ ثابت ہو۔انھوں نے اس موقعہ پر عشقِ لازوال کے مصنف (طارق حسین بٹ )کے لئے یوتھ انٹرنیشنل ایوارڈ کا بھی اعلان کیا جو انھیں یوتھ انٹرنیشنل کی اگلی سالانہ تقریب میں پیش کیا جائیگا۔
اس موقع پر طارق حسین بٹ شان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں ان مستقل اقدار کا علم تھامے ہوئے ہوں جھنیں اہلِ جہاں اپنے پائوں تلے روند ھنے کا قصد کئے ہوئے ہیں۔لوگوں کے اذہان میں آزادی کا ایک ایسا ہوشربا طلسم راسخ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر شہ کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اپنی زندگیوں میں کسی قسم کی پابندیوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان کی اس سطحی سوچ کی وجہ سے پورے معاشرے میں بے راہ روی کا دور دورہ ہے جس نے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ ترقی پسندی کے کہیں بھی معنی یہ نہیں کہ ہم اصولوں اور مستقل اقدار سے دست کش ہو جائیں،انصاف اور برابری کے گیت گانے چھوڑ دیں، تکریمِ انسانی سے ہاتھ کھینچ لیں اورقوانینِ خداوندی سے بغاوت کر کے برہنگی ،حیا سوزی، ہیجان انگیزی،سنسنی خیزی اور غیر اخلاقی رویوں کے رنگ میں رنگ کر معاشرے کے سارے حسن کو تباہ و برباد کر دیں۔
کمپیوٹر، ٹیلیفون، ٹیلیویژن، انٹر نیٹ اور اسطرح کی جدید سہولیات سے متمتع ہونے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم سچائی کا ساتھ چھوڑ دیں، قدروں کا بلیدان دے دیں،بھائی چارے کو متروک قرار دے دیں، انسان دوستی کا خون کر دیں اور عظمتِ انسانی کے سنہری اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر کے حرص و ہوس کی اس بے ہنگم شاہراہ پر محوِ سفر ہو جائیں جس کا حتمی نتیجہ انسانی تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
اس موقعہ پر پروفیسر محمد وسیم چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے عشقِ لازوال کے دیباچے اور لفظ کی عظمت کو بے حد سراہا۔انھوں نے کہا کہ انسانی عظمت اور بلند کرداری کے تمام اسباق عشقِ لازوال میں جا بجا موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔آج کی نوجوان نسل کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان موتیوں سے اپنے کردار میں کیے جلا پیدا کر سکتے ہیں اس موقع پر محمد ظہیرالدین بابر نے بھی خطاب کیا اور مصنف کو ایسی خوبصورت کتاب تصنیف کرنے پر دلی مبارکباد پیش کی۔۔