تحریر : ابن نیاز آج پانچواں دن تھا، وہ نہ سو پا رہی تھی نہ اسکو سکون مل رہا تھا۔ سگریٹ جسے وہ دنیا کی سب سے بڑی لعنت کہتی تھی، ایک کے بعد ایک سلگا کر خود کو سلگاتی جا رہی تھی۔ شراب جسے وہ واقعی ام الخبائث کہتی تھی اور سمجھتی تھی اور اسکے نتائج بھی دیکھ چکی تھی، یو جام پہ جام پیے جا رہی تھی جیسے صحرا میں سفر کرنے والا کوئی بہت پیاسا یکے بعد دیگرے پانی کے گلاس پی جاتا ہےویلیم کی ٹیبلٹ کے پانچ استعمال شدہ پتے نیچے فرش پر بکھرے نظر آرہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان پانچ دنوں میں وہ پچاس گولیاں کھا چکی تھی۔لیکن پھر بھی نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ ہر چیز کی زیادتی نقصان دیتی ہے ، وہ یہ بات جانتی تھی۔ لیکن جان بوجھو کر انجان بن کر ہر وہ نشہ استعمال کیا تھا جس سے وہ نفرت کرتی تھی۔ہر ایک گھنٹے بعد وہ موبائل اٹھاتی، ایک میسج ٹائپ کرتی اور آگے بھیج دیتی۔ پھر موبائل کو ایک طرف رکھ کر ایک آہ بھرتی اور سگریٹ کا کش لگاتی، پھر گلاس میں موجود شراب کا ایک گھونٹ بھرتی۔ اسکی تلخی کو محسوس کرتے ہوئے مسکرا دیتی۔ پھر خود سے کہتی کہ کیا تلخی ہے، جو تلخی کو مٹا بھی نہیں سکتی۔ سنا تھا لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔لیکن یہ تلخی تو تلخی میں اضافہ ہی کرتی ہے، نہ کہ اسے ختم کرتی ہے۔ چلو فائدہ نہیں تو کیا ہوا، کچھ تو ہے جو غم کو غلط کرتی ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کو اس طرح آہستہ آہستہ ہونٹوں سے نکالتی کہ وہ اسکے چہرے کے آگے ہی آہستہ آہستہ گھلتا۔ جس کو وہ دیکھتے ہوئے وہ یوں محسوس کرتی جیسے کسی کو دیکھ رہی ہو۔
پانچ دن پہلے اس نے منتیں کی تھیں، روئی تھی، گڑ گڑائی تھی، دہائی دی تھی، لیکن اسکی ایک بھی نہ سنی گئی تھی۔ اس نے کون سی قسم تھی جو نہیں دی تھی، کونسا وعدہ تھا جو نہیں یاد دلایا تھا، لیکن اسکی کسی بات کو بھی درِ خود اعتنا نہ سمجھا گیا تھا۔ پانچ سال کا ساتھ ایک گھنٹے میں یوں ختم ہو گیا تھا جیسے برف رکھے رکھے پگھل جاتی ہے، پھر دھوپ کی تپش اس پگھلے پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دیتی ہے۔ اور کوئی ثبوت نہیں رہ جاتا کہ کبھی یہاں پانی کی زندگی موجود تھی۔پانچ دن پہلے اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ بس یہ بات اس کی گویا ساری زندگی کو دھواں دھواں کر گئی تھی۔ اس بات کا جواب اسے یہ ملا تھا کہ پانچ سال تک ہر بات اسکو سمجھانے کی کوشش کی گئی، اسکی بات سمجھ کر بھی نا سمجھی میں اڑا دیا گیا۔ بات کو مان کر بھی ٹال دیا گیا۔ کبھی منٹوں میں تو کبھی ہفتوں میں۔ لیکن اس پر ہمیشہ کے لیے عمل کی یقین دہانی کبھی نہیں کرائی گئی۔ اسے یہ کہا گیا کہ وہ بات کو دہراتی بہت ہے، جس کا جواب مل بھی جاتا ہے،
پھر بھی وہ سوال دوبارہ بھی اٹھاتی تھی۔ ایک بات کی توجیہہ مکمل طور پر مل جاتی تھی، پھر بھی وجہ ضرور پوچھتی تھی۔ وہ اپنی کسی خامی کو دور کرنے کے لیے تجویز مانگتی تھی اورقابلِ عمل ہونے کی صورت میں اس پر عمل کا وعدہ کرتی تھی، اور اس بات کے مصداق کہ وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے، وعدہ بھول جاتی تھی۔ دس بارہ دن بعد پھر سے وہی باتیں شروع ہو جاتی تھیں۔لیکن وہ ایسا کیوں کرتی تھی، جب کہ اسکے ساتھ تو کوئی وعدہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ پانچ سال پہلے اسے محبت ہو گئی تھی۔۔ لیکن اس نے کبھی کہا نہیں تھا۔ جتایا نہیں تھا۔ دو سال تک وہ خود سے لڑتی رہی تھی۔ خود پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی تھی۔ہر ممکن طریقے سے اس نے اس سے رابطہ نہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ دل ہی کیا جو آسانی سے مان جائے۔اس نے ایک آخری کوشش کے طور پر اپنا سیل فون اٹھایا۔ کمال کا نمبر ڈائل کر کے کال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کال گذشتہ پانچ دن کی طرح اس بار بھی نہ ملی۔ وہی آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال مصروف ہے، تھوڑی دیر بعد کوشش کریں، کا کمپیوٹر پیغام چل رہا تھا۔ پھراس نے لزرتے ہاتھوں سے پیغام لکھا۔ ” میں ٹوٹ گئی ہوں۔ بکھر گئی ہوں۔ آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
Sms Typing
لیکن یہ دل آپ کی مالا ہی جپ رہا ہے۔” یہ لکھ کر کمال کے نمبر پر بھیج دیا۔ “اگر زندہ رہی تو آپ کو زندگی بھر معاف نہیں کروں گی۔” لکھ کر بھیج دیا۔ “آپ نے کبھی مجھ سے محبت کی ہی نہیں۔ میں ہی پاگل تھی جو آپ پر مرتی رہی۔” یہ پیغام بھی کمال کو بھیج دیا۔ “پیسہ ، سٹیٹس ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ سیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔” لکھ کر بھیج دیا۔اگلا پیغام لکھتے لکھتے اسے پ ھر سگریٹ کی طلب ہوئی۔ پاس میز پر پڑی ڈبیا سے سگریٹ نکالا۔ انگلیوں میں پکڑ کر اسے گھمایا۔ حسرت سے دیکھ کر بولی۔ ” اْس بے وفا سے تو تم ہی اچھے ہو۔ میرے دکھ کو، میرے احساس کو دھوئیں میں تو اڑا دیتے ہو۔” پھر سگریٹ کو سلگایا۔ کش لے کر دھوئیں کا مرغولہ ہونٹوں سے نکالا۔ پھر دھوئیں کو دیکھتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔ “لیکن کیا فائدہ۔ دھوئیں میں وقتی طور تو اڑجاتا ہے۔ لیکن پھر کمرے میں بھوت بن کر پھیل جاتا ہے۔ اور بھوت میں تم ہی تم نظر آتے ہو۔ جس سے ڈر نہیں لگتا۔ بس حسرت بن جاتے ہو کہ کاش تم میرے ہوتے۔” ” شراب میں حل ہو جاتا ہے سارا غم۔ کون کہتا ہے؟ یہ سالی تو حلق سے اترتی ہے اور سر سے پا?ں تک ہر ریشے، ہر رگ میں سے یوں گزرتی ہے جیسے کانٹوں کے جھاڑ میں کوئی کسی کو ننگا کھینچ رہا ہو، اور اسکی کھال کے ہر مسام میں وہ کانٹا گھس کر اسکی کھال ادھیڑ رہا ہو۔” پاس پڑی بوتل سے شراب کو گلاس میں انڈیلتے ہوئے بولی۔
ایک ہاتھ میں سگریٹ، دوسرے میں شراب کا گلاس تھامے کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ اک سپ ہی لیا تھا کہ موبائل کی میسج ٹون بجی۔ “گھر میں سے کسی کا میسج ہو گا۔” یہ کہہ کر ایک اور سپ لیا۔ “کمال کا بھی تو ہو سکتا ہے۔” جھٹ سے موبائل اٹھایا تو کمال کا ہی میسج تھا۔ “وہ آئے، انکا جو پیام آیا آج ہی تو سرور میں یہ جام آیا۔۔ کمال صاحب، یہ جام آپ کے نام۔” یہ کہہ کر پورا جام چڑھا گئی۔ اور پھر میسج کو پڑھا۔ “اخلاق کی بات کیوں کرتی ہو؟ کوئی شک نہیں کہ تم بہت اچھی ہو۔ لیکن میرا اخلاق بھی تو دیکھو۔ کیا میں نے کبھی تمھارے ساتھ کوئی غلط کام کیا ہے۔ ہم نے کتنی راتیں اکٹھے گزاری ہیں۔کبھی تمھارا ہاتھ تھام کرخود سے قریب کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔” “ہائے ظالم۔یہی تو آپ کا کمال ہے۔ کہ کچھ نہ کرکے بھی بہت کچھ کر گئے۔” میسج پڑھ کر زور سے بولی۔یہی لکھنے کے لیے اس نے ریپلائی کا بٹن دبایا ہی تھا کہ دوبارہ میسج آیا۔ ” جہاں تک بات پیسہ اور سٹیٹس کی ہے تو وہ میں نے تمھیں پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ میرا مقصد بہت بڑا آدمی بننا ہے۔ اتنا بڑا کہ یہ دنیا جھک جھک کر مجھے سلام کرے۔ بڑے سے بڑا آدمی کم از کم ایک بار میرے دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے حسرت کرے۔ اس کام کے لیے بہت سے امکانات ہیں۔ اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ میں شادی نہ کروں۔ پہلے دن تمھیں سمجھا دیا تھا اور کئی بار سمجھایا ہے کہ میں نے شادی کا جھنجھٹ پالنا ہی نہیں۔لیکن تمھیں سمجھ نہیں آئی۔” اس نے کمال کا میسج پڑھا۔ اور میسج پڑھ کر غصے سے موبائل کو بیڈ پر پھینک دیا۔
شراب کی بوتل سے گلاس کو دوبارہ آدھا بھرا اور ایک ہی سانس میں دوبارہ پی گئی۔”ہونہہ۔ جب شادی نہیں کرنی تھی تو پانچ سال پھر میرے ساتھ کیوں گزارے۔ کیوں دن رات مجھے فون کرتا رہا۔ کیوں میری بات مانتا رہا۔ کیوں مجھے زندگی گزارنے کے مشورے دیتا رہا۔ میری مشکلوں کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ کیوں؟ کیو ں اس نے میرے ساتھ راتیں گزاریں۔ کیوں میرے کہنے پر میرے ساتھ مختلف شہروں کی سیریں کرتا رہا۔ مجھے شاپنگ کرواتا رہا۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی۔” سگریٹ جو میسج پڑھتے ہوئے بجھ گیا تھا، دوبارہ سلگا کر ٹہلتے ہوئے اپنے آپ سے کہتی رہی۔”ہاں ، غلطی میری ہی تھی۔ میں پھر بھی پر امید تھی کہ جب اتنا کچھ کر رہا ہے۔ کسی طور بھی رابطہ ختم نہیں کر رہاتھا ، میرے بار بار کہنے کے باوجود کہ اگر شادی نہیں کرنی تو پھر رابطے کم کر دیں۔ جب اس نے رابطے ختم نہیںکیے، تو ضرور ساتھ دے گا۔ اپنی زندگی کا ساتھی مجھے بنائے گا۔ میں ہی پاگل تھی۔ جو اسکی ہنس کر ملنے کی عادت کو محبت سمجھ بیٹھی۔ اسکے خیال کرنے کی فطرت کو چاہت سمجھ بیٹھی۔” وہ مسلسل اپنے آپ سے مخاطب تھی۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کیے ہی جا رہی تھی کہ کمال کی کال آگئی۔ اس نے فوراً کال اٹینڈ کی اور بولی۔
Sad Man
” زہے ، نصیب۔ آج تو دل کے دروازے کھل گئے۔ آخر ہماری یاد تڑپا ہی گئی۔ خوب کروٹیں بدلی ہوں گی، دل نے کسی کروٹ چین نہ لینے دیا ہو گا، خوب تارے گنے ہوں گے۔۔۔۔ ” وہ شراب کے نشے میں دھت بولے چلی جارہی تھی۔”جسٹ شٹ اپ۔ شٹ یور ما?تھ۔ بند کرو بکواس۔ نہ پہلے کبھی تڑپا ہوں تمھارے لیے نہ اب تمھاری ضرورت ہے۔ میں نے فون اسلیے کیا ہے کہ تمھیں بتا سکوں تم میری زندگی میں نہ پہلے کبھی تھیں نہ اب اور نہ پھر کبھی ہو گی۔خبردار جو کبھی دوبارہ مجھے میسج کیا۔جسٹ لیو میں۔ لیو می فار ایور۔” کمال نے اسکی بات کاٹ کر تیز تیز اور اونچے لہجے میں کہا۔ اور یہ کہہ کر کال کاٹ دی۔”تو ٹھیک ہے کمال! تم نے واقعی اپنے نام کی طرح کمال کیا ہے۔ سنا تھا کہ نام کا شخصیت پر بہت اثر ہوتا ہے۔ اور تم نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔
ٹھیک ہے۔” کال ختم ہونے کے کچھ دیر بعد وہ گنگ ہو کر بیٹھی رہی پھر بولی۔اس نے سگریٹ کا کش لگایااور اوپر تلے پانچ چھ کش لگائے۔ لیکن دھواں باہر نہیں نکالا۔ اندر ہی اندر جذب کر گئی۔لیکن دھواں کہاں جذب ہوتا ہے، آہستہ آہستہ باہر سانس کے ساتھ باہر نکلتا رہا۔” تمھاری زندگی سے میں ایک ہی طرح نکل سکتی ہوں۔ لیکن میں نکل کر بھی تمھاری یادوں میں رہوں گی۔ میری یاد تمھیں ناگ بن کر ڈستی رہے گی۔ محبت کا ناگ۔ تمھاری راتوں کی نیندیں نہ حرام ہوئیں تو کہنا۔ میری بد دعا ہے کہ تمھیں کبھی خوشی نہ ملے۔الوداع، ہمیشہ کے لیے الوداع” اس نے موبائل پر یہ میسج ٹائپ کیا۔
سائیڈ ٹیبل سے ویلیمـ10 کا پورا سٹرپ نکالا۔ دس کی دس ٹیبلیٹس شراب کے آدھے گلاس کے ساتھ نگل لیں۔ اور جو میسج ٹائپ کیا تھا، کمال کو بھیج دیا۔موبائل ایک طرف رکھ خود بیڈ پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لینے شروع کر دیے۔ وہ ختم ہوا تو دوسرا سلگا لیا۔ آہستہ آہستہ ٹیبلیٹس کا اثر ہونا شروع ہو گیا تھا۔اس پر غنودگی طاری ہونا شروع ہو گئی۔ کوئی بیس منٹ کے بعد اسکے حواس مکمل طور پر گم ہونا شروع ہو گئے تھے کہ اسے احساس ہوا موبائل بج رہا ہے۔ وہ دھیرے سے جیسے مسکرائی۔”الوداع، الوداع۔۔” وہ ہولے سے بڑبڑائی جسے شاید خود بھی نہ سن سکی ہو۔جھٹکے سے وہ بیڈ پر گری۔ اسکے ہاتھ سے سلگتا ہوا سگریٹ نیچے کارپٹ پر جا گرا۔ اور ہاتھ جھٹکا کھا کر میز پر پڑی بوتل سے جا ٹکرایا۔ بوتل سیلڑھک کر نیچے گری اور شراب وہاں پڑی جہاں سگریٹ ابھی تک سلگ رہا تھا۔محبت کے ناگ نے بالآخراس کو ڈس لیا تھا۔وہ محبت کی آگ میں جھلس گئی تھی۔