محبت فلرٹ اور عزتوں کی بربادی

Love

Love

تحریر: افضال احمد
ایک لڑکی اور لڑکے کی محبت کے بارے میں بتاتا چلوں پھر آگے چلتے ہیں۔ نہیں نورین میں اسے نہیں بھول سکتی وہ میری زندگی میں آنے والا واحد شخص تھا اب میں اس کے بعد کسی اور سے محبت نہیں کر سکوں گی وہ میری سانسوں میں بس گیا تھا اور رہے گا۔ عائشہ بری طرح روتے ہوئے اپنے دوست کو بتا رہی تھی جو اسے سنبھالنے کی کوشش میں خود بھی نڈھال ہو رہیں تھی اسے یوں روتے دیکھ کر میرے قدم اپنے آپ ہی رُک گئے اور بے اختیار ہی ان کی طرف بڑھ گئی اور اس کی دوست سے اس کے رونے کا سبب پوچھا۔ میں اس کی بات سن کر سوائے تاسف کے کچھ نہ کہہ سکی۔ مجھے اس پر غصہ بھی آرہا تھا جو اس بے وفا شخص کیلئے رو رہی تھی جس نے تین سال اس سے محبت کی پینگیں بڑھانے کے بعد یہ کہہ کر چھوڑا ہے کہ ”تم میری اچھی دوست کے سانچے میں تو ڈھلتی ہو لیکن بیوی کے فریم میں فٹ نہیں ہوتی” اس کی باتیں سن کر حقیقتاً مجھے افسوس ہوا تھا لیکن ساتھ میں اس کی بے وقوفانہ حرکت پر بھی غصہ آرہا تھا جو اس شخص کیلئے رو رہی تھی جس نے اسے چھوڑتے ہوئے بے وفائی کی آخری حد تو پار کی ہی تھی ساتھ ہی اسے وقت گزاری کا ذریعہ کہہ کر بے عزت کیا۔ پھر میں اور اس کی دوست مل کر اس سے چھپ کر رونے لگے اور اس مصروفیت میں چھٹی کا وقت آگیا۔

ابھی اس بات کو چند ہی دن گزرے تھے کہ وہی لڑکی اپنی منگنی کی تصویریں لے آئی جس طرح اس کے چہرے پر حیا کی لالی اتر آئی تھی اس کی کھلتی باچھوں سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیا وہ واقعی اس لڑکے سے سچی محبت کرتی تھی یا واقعی انہوں نے وقت پاس کرنے کے نام کو محبت کا نام دیا تھا۔ اس کی یہ ہنسی حقیقت ہے یا اس کا رونا سچ تھا۔ وقت اور حالات گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا احساس شدت سے ہوا کہ واقعی عائشہ ٹھیک تھی۔ اس نے اپنے وقتی جذبوں سے مغلوب ہو کر اپنے رشتے کو محبت کا نام دیا تھا لیکن اپنی منزل تک پہنچنے تک انہیں احساس ہو گیا تھا کہ جن باتوں کو وہ پیار کا انداز سمجھے تھے وہ تکلم و تبسم تو آج کے دور میں عادت میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پیار محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے ‘ ایک میٹھا احساس’ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ رہنے کیلئے پیار و محبت حقیقی امر ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج کے دور میں عشق و محبت حقیقی انداز میں صرف کتابوں’ فلموں اور ڈراموں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب وہ زمانے ختم ہو گئے ہیں جب سچی محبتوں کی مالا جپی جاتی تھی’ جب عہد وفا کو نبھانے کیلئے ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا اور جذبوں کی پامالی بڑی بات ہوا کرتی تھی بلکہ انہیں سینت سینت کر رکھا جاتا تھا جب محبت کرنے والے ایک دوسرے کی خاطر اپنی پہچان بھی مٹا دیتے تھے۔ حقیقی معنوں میں اب وہ دور اور اس دور کی چاشنی ختم ہو گئی ہے۔ اب تو صرف مطلب کیلئے لوگ نام وفا لیتے ہیں آج کے دور میں محبت کو بھی کھیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک جوئے کی طرح اس پر دائو پیچ لگائے جاتے ہیں مل گئی تو ٹھیک نہ ملی تو نہ سہی۔ یہ سچ ہے کہ آج کل کے دور میں ”فلرٹ” زیادہ اور سچی محبتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کچھ خلوص اور سچی محبتیں باقی ہیں تو وہ بے تحاشہ ”فلرٹ” کی بھٹی میں آکر دم توڑ رہی ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بے ایمان محبتوں نے سچی محبتوں کو بھی بدنام کر دیا ہے۔

Materialism

Materialism

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے مادیت پرستی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اسی طرح سچے جذبے اور پیار بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں یہ نہیں کہ اب محبتیں اور چاہتیں اب بھی باقی ہیں لیکن ان جذبوں کی پاکیزگی اور حیا ختم ہو گئی ہے۔ یہ قیاس کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون سی بات لڑکی کے کرنے والی ہے اور کون سی بات لڑکے کے کرنے والی ہے۔ کبھی زمانہ تھا کہ لڑکا’ لڑکی اپنے جذبوں اور محبتوں کو دوسروں سے کیا خود سے بھی چھپا رکھتے تھے۔ انہیں اپنے جذبوں کی سچائی کیلئے لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن اب اس دور میں اس مقولے پر عمل کیا جاتا ہے کہ ”محبت کے پودے کو اظہار کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے” چاہے پانی چوری کا ہی کیوں نہ ہو’ لیکن اظہار ہوناچاہئے۔ یہ سچ ہے کہ اظہار ضروری ہے لیکن غلط یہ بھی نہیں کہ اظہار کیلئے ڈھکے چھپے لفظوں کا ہونا ضروری ہے’ بجائے اس کے کہ کھلے ڈھلے بے باک لفظ استعمال کئے جائیں جیسا کہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں ہو رہا ہے۔ جہاں کھل کر اپنے بوائے فرینڈز یا گرل فرینڈز کو متعارف کروایا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے شرم و حیاء کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

مہینوں اور کبھی سالوں ایک دوسرے سے عشق و محبت کی پینگیں بڑھانے کے بعد آرام سے اس رشتے کو دوستی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کسی لڑکے اور لڑکی کے درمیان کبھی بھی دوستی کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔ چاہے اس انکار کو کتنی طوالت ہی کیوں نہ دی جائے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج کے دور میں لڑکی ہو یا لڑکا ”فلرٹ” کرنے کے کھیل میں برابر کے شریک ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا جب محبتوں کے نہ ملنے پر لڑکا یا لڑکی مہینوں اداس رہتے تھے اور کچھ تو ان میں سے غلط فیصلے بھی کر جاتے تھے اگر کبھی دو دل نہیں مل پاتے تھے تو اس میں یا تو قصور وار زمانہ کو ٹھہرایا جاتا تھا یا پھر عورت کی ازلی بزدلی اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی تھی جو اپنے ماں باپ کی عزت کی خاطر محبت سے بھی انکار کر جاتی تھی۔مگر آج کے زمانے میں لڑکا ‘ لڑکی اگر آپس میں مخلص ہوں تو وہ ہر لحاظ سے اور بلا جھجک اپنے حق کیلئے لڑتے ہیں چاہے انہیں اپنی محبت کو پانے کیلئے اپنے والدین کو عدالتوں میں ہی کیوں نہ گھسیٹنا پڑے وہ ایک ہو کر رہتے ہیں چاہے اس کے بعد عمر بھر ان کا نباہ نہ ہو سکے۔

اول تو اب لڑکے لڑکیاں اس کھیل میں اس قدر طاق ہو گئے ہیں کہ وہ ان وقتی محبتوں کو روگ نہیں بناتے بلکہ انجوائے کرتے ہیں۔ یعنی ”خوابوں میں کسی کے اور بانہوں میں کسی کے” کے مصداق عمل کرتے ہیں۔ حقیقتاً وہ دور وہ زمانے ختم ہو گئے ہیں جو اہل دل کو راس تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج کے دور کی سچی اور جنونی محبتیں بے اعتباری اور ”فلرٹ” کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے تو کیا دنیا محبت سے خالی ہو رہی ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب نی ڈھونڈا گیا تو آنے والے معاشرے خدانخواستہ محبت اور روح دونوں سے خالی ہو کر رہیں گے؟ بہت سے لوگ لڑکیوں کو محبت اور شادی کا لالچ دے کر ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں اور جب عزتوں سے کھیل کھیل کر دل بھر جاتا ہے تو کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے لڑکی سے جان چھڑا لیتے ہیں اور بیچاری لڑکیاں اُن کی محبت میں اندھی ہو جاتی ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتی ہیں ایک ایسے شخص کی خاطر جو چند عرصے بعد اسے چھوڑ کر کسی اور لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ چند لمحوں کی لذت کی خاطر برسوں لڑکیوں کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے اور جب لڑکی کی آنکھوں سے جھوٹی محبت کی پٹی اترتی ہے تو اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔میں تو کہوں گا حقیقت تو یہ ہے کہ آج کل محبت صرف ہوس کو پورا کرنے کیلئے کی جا رہی ہے۔

Wedding

Wedding

آخر میں میں بہنوں سے چند باتیں کرنا چاہوں گا۔ میں مانتا ہوں کہ آج کل کے والدین کی بہت بڑی غلطی ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں جن کے غلط نتائج بھی آرہے ہیں لیکن والدین کو ہوش تب آتی ہے جب بیٹی اپنا سب کچھ (عزت) گنوا بیٹھتی ہے۔ خیر بہنو! گزارش ہے کہ پورے خاندان کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہے کتنے پیار سے ماں باپ آپ کو تکلیفیں برداشت کرکے جوان کرتے ہیں’ بہن بھائی کتنا پیار کرتے ہیں آپ کو آپ کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں اور آپ ایک غیر مرد کی جھوٹی محبت میں گرفتار ہو کر اپنا سب کچھ لٹا دیتی ہیں برائے مہر بانی خود پر اور اپنے گھر والوں پر رحم کھائیں۔ جو والدین’ بہن بھائی آپ کو دوپٹہ لینا سیکھاتے ہیں پردہ کرنا سیکھاتے ہیں ان کی عزتوں کو کسی غیر مرد کے قدموں تلے مت روندو۔ والدین بھی اپنی جوان اولاد کی عمر سے گزر چکے ہیں تو اپنی اولاد کے جذبات کا احترام کریں نہیں تو جوان اولاد آپ کی عزت کا احترام بھول جائے گی اور کچھ غلط کر بیٹھے گی۔ میں آج کل روزگار کی تلاش میں ہوں سب سے دعا کی التماس ہے۔

یہاں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ صرف برادری ہی میں رشتے کرنے ہیں باہر نہیں چاہے اولاد بوڑھی ہو جائے والے لوگ بھی متوجہ ہوں بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اپنے خاندان سے باہر بیٹی یا بیٹے کی شادی نہیں کرتے اور اسی ضد میں اولاد گھر بیٹی بوڑھی ہو جاتی ہے جب اولاد کے ذہن میں بیٹھا دیا جاتا ہے کہ آپ کی شادی خاندان سے باہر تو کرنی ہی نہیں تو جب خاندان میں اُن کو اپنے ساتھ کا کوئی نظر نہیں آتا تو ایسی اولاد بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے شادی تو ہونی نہیں تو کیا فائدہ انتظار کرنے کا ۔بہت سی ایسی برادریاں ہیں جو اپنے خاندان سے باہر شادی کرنا بہت برا سمجھتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایسے ہی خاندانوں کی اولادیں آج کل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہیں۔ چاہے وہ جھوٹی محبت میں گرفتار ہو کر سب کچھ لٹا دیں یا پھر کسی اور وجہ سے تو ہمیں یہ نظام بدلنا چاہئے۔

Afzal Ahmed

Afzal Ahmed

تحریر: افضال احمد