نہ محبت کا نہ کدورت کا تجھ سے ناطہ ہے بس ضرورت کا ہم صلیبوں پہ جھولنے والے! پاس رکھتے ہیں سچ کی حرمت کا بھوک اگنے لگی ہے کھیتوں میں کتنا کڑوا ہے پھل یہ محنت کا مفلسی رو رہی ہے قبروں پر پائوں بھاری ہوا امارت کا اپنے باطن کی روشنائی سے توڑ دیں گے حصار ظلمت کا کتنے گمنام علم و فن ٹھہرے کتنا شہرہ ہے اِس جہالت کا ایک نہ ایک دن تو ہم ساحل تجھ سے لیں گے حساب نفرت کا