تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسجدِ نبوی میں عاشقانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک سیلِ رواں تھا۔ جو آہستہ آہستہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ فضائوں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف و سرور کی لذتیں بکھر رہی تھیں۔ محبتوں اور عقیدتوں سے مالا مال عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ شہنشاہِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں کے چہرے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنچ سے گلنار ہو رہے تھے۔
عاشقانِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں کے یہ نوری ریلے صدیوں سے اِسی طرح رواں دواں ہیں سب کی گردنیں عقیدت و احترام سے جھکی ہوئی تھیں کیونکہ وہ شہنشاہ ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اِس کائنات کی سب سے بڑی کچہری میں حاضر ہونے جا رہے تھے۔ دنیا بھر سے پروانے جب اِس جزیرہ عافیت میں آتے ہیں تو فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک خاص سرشاری اور طمانیت بھری بالیدگی محسوس کرتی ہے ۔مسجدِ نبوی کے اندر قدم رکھتے ہی ہر انسان اپنے اند ر ایک جہان ِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتا ہے دل و دماغ میں ایک زلزلہ سا بپا ہو جاتا ہے جس سے سالوں کا زنگ لمحوں میں اُتر جاتا ہے ۔آنے والوں کے ہر مسام میں ساقی کوثر کے عشق کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے ۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں روشن چراغ کی طرح ٹمٹاتی رہتی ہے وہ مدینہ پاک کی گلیوں کی خاک کو آسمان کی رفعتوں سے بھی ارفع سمجھتے ہیں ۔مسجد نبوی میں دور دور تک عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھیلے ہوئے تھے پاکستانیوں کی تعداد کم لگ رہی تھی۔
دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کی تعداد موجود تھی کیونکہ میری ساری عمر پاکستان میں ہی گزری ہے یہاں پر آکر جب ترکی ، انڈونیشیا ، ایران ، ملائیشیا ، افریقہ اور یورپ سے آئے ہوئے مختلف خدوخال کے مسلمانوں کو دیکھا تو بہت اچھا لگا۔اِن لوگوں میں عورتیں بچے بڑے اور بوڑھے سب لوگ شامل تھے ۔اکثریت تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہے تھے کچھ نوافل ادا کر رہے تھے، کچھ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے کچھ گردوپیش سے بے نیاز روضہ روسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سبز گنبد کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے ۔ کچھ تسبیح پر اور ادووظائف پڑھ رہے تھے ۔اِن سب کے دل عبودیت اور عشقِ رسول کے ساتھ ساتھ بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہوئے تھے اِن کے چہروں پر عقیدت و احترام کے ہزاروں سورج روشن تھے سب اپنی خطائوں پر نادم تھے ۔دونوں جہانوں کے سب سے بڑے مسیحا کے در پر آکر خدائے رحیم وکریم سے عفو و درگزر کے خواستگار تھے۔
Muhammad PBUH
الائشوں ، دکھوں ، ظلم سے بھری دنیا سے کٹ کر لوگ ایک ایسے جزیرہ عافیت رنگ و نور کی بستی میں آبیٹھے تھے جہاں چاروں طرف رنگ و نور اور آسودگی کے فوارے پھوٹ رہے تھے ۔یہاں انسانوں کی کثافتیں لطافتوں میں ڈھل رہی تھیں یہاں منافقتوں ، آلودگیوں سے پاک مخلوق منزہ مخلوق کے سانچے میں ڈھل رہی تھی۔یہاں پر گناہوں سے تائب شرمسار ، نادم اور مستقبل کے لیے نیکو کاری کا عہد کرنے والی مخلوق تیار ہو رہی تھی یہ عظیم کام چودہ صدیوں سے دن رات یہاں ہو رہا ہے کروڑوں پتھر دل گناہ گار ظالم و جابر اِس درِ اقدس پر آئے اور گناہ برائی ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر عبادت گزار اور انسانوں سے پیار اور خدمت خلق کا جذبہ لے کر گئے اور مرتے دم تک اِس عہد اور نیکی پر قائم بھی رہے ۔میں چاروں طرف خوشگوار حیرت سے ساقی کوثر کے پروانوں کو دیکھ رہا تھا ۔ کچھ لوگ مرمریں ستونوں سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے یہاں پر گزرتے لمحے کو enjoyکر رہے تھے کچھ کسی گوشے میں گہری نیند سو رہے تھے میں کئی با رکوشش کر چکا تھا کہ اٹھ کر اُس قافلہ ِ شوق میں شامل ہو جائوں جو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن ایک انجانا خوف مجھے روک لیتا میرے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ جاتی کہ پتہ نہیں شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور سلام کا طریقہ کیا ہے کس طرح جانا ہے کیا پڑھنا ہے کیسے کھڑے ہونا ہے کیسے بولنا ہے کس طرح نظر اُٹھانی ہے مجھ گناہ گار سیاہ کار سے کوئی گستاخی نہ ہو جائے میری کسی حماقت یا بے ادبی سے شہنشاہ ِ دو جہاں ناراض نہ ہو جائیں ۔پھر مجھے حضر ت جابر سے روایت کردہ حدیث پاک یاد آئی۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مِثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اُس میں گرنے لگے اور وہ اُن کو آگ سے ہٹاتا تھا سو میں کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے والا ہو ں اور تم آگ میں گرنا چاہتے ہو میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو ۔قیامت کے دن جب سورج سوا نیزے پر ہو گا ماں بچوں کو نہ پہچانے گی کوئی کسی کا مددگار اور والی نہ ہو گا ۔خدائے بزرگ و برتر کی ذات پوارے جلال میں ہوگی کسی کو جرات نہ ہوگی کہ خالق ِ ارض و سما کے سامنے لب کشائی کر سکیں۔
لوگ شفاعت کے لیے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس جائیں گے مگر سب انکار کریں گے کسی میں جرات نہ ہوگی کسی کی سفارش کر سکیں ۔پھر ایک طرف سے شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے نظر آئیں گے تو سب لوگ آپ کی خدمت اقد س میں حاضر ہونگے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدائے بزرگ و برتر کی حمد و چناء کے بعد سجدے میں گِر پڑیں گے تو ربِ ذولجلال کی طرف ارشاد ہو گا کہ اے میرے محبوب سجدے سے سر اٹھا ئیے جو مانگئے دیا جائے گا شفاعت کیجیئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اس وقت آپ یوں عرض کریں گے۔
یا رب امتی امتی اے میرے پروردگار میری اُمت ، خالقِ ارض و سما شافع محشر کی شفاعت قبول فرما ئیں گے ۔ پہلے نبیوں کی امتوں میں صرف گناہ یا برائی ہوتی تھی تو جبار قہار کا عذاب ان نا فرمان قوموں پر آجاتا اور وہ قومیں ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں آج پرانی اُمتوں کی تمام برائیاں ہم میں موجود ہیں لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کہ اے میرے رب میری قوم پر عذاب نہ لانا ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ایک دفعہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ مشرکین پر بد دعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔