تحریر : نوشین مجیب محبت ایک لازوال تحفہ ہے۔ محبت نہ ہوتی تو دنیا میں نفرتوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ نہ شفقت پائی جاتی اور نہ ہوئی کسی پر رحم کرتا۔ ایک ایسا احساس کے جب اس میں کسی چیز کو پرو دیا جائے تو وہ خود با خود انمول ہوتا جاتا ہے۔ محبت ایک جذبہ نہیں احساس ہے۔ جس روز سے لوگ اس کو جذبہ سمجھنے لگے ہیں تب سے محبت کی کاپی بازار میں آ گئی ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ بھی دیکھنے میں اصل محبت سی ہوتی ہے مگر اس میں کالا رنگ احساس پر چھا جاتا ہے۔ محبت کی یہ کاپی لوگوں کے جذبات کو مجروع کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔
اکثر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اصل اور جذباتی محبت کیا ہوتی ہے۔ محبت سے انکار نہیں ہے۔ یہ انسانی رشتوں میں پرو کر دی گئی ہے۔ کچھ وہ رشتے ہیں جنہیں محرم کہا جاتا ہے ان کی آپس میں محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ جیسے باپ، دادا، نانا، چچا، ماموں، بھائی، بیٹا وغیرہ ہیں۔ ان سب رشتوں کو رب نے محبت کی ڈوری میں پرویا ہے تبھی ان رشتوں کے لیے محبت رگ رگ سے پھوٹتی ہے۔ یہ قدرتی انداز میں رکھی گئی فطری محبت ہے۔ جسے اصل محبت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
Love
دوسری جذباتی محبت وہ ہے آج کل ہمیں روز مرہ عجیب و غریب انداز میں دیکھنے میں ملتی ہے۔ خدا کی پناہ ہر دوسرے گھر میں ایک عاشق اور ایک معشوق رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل سے تو اور بھی یہ وائرس پھیل چکا ہے۔ جہاں بھی ہے جس عمر کا بھی ہے عشق فرما تا نظر آ رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ غیر ضروری اور غیر اخلاقی محبت ہمیشہ خسارے کا باعث بنتی ہے۔
صنف مخالف کی جانب رغبت ایک فطری سا عمل ہے اور اس پر کسی کا بس نہیں چلتا جبھی اسلام نے اس کی حدود و قیود بھی بتا دی ہیں۔اگر لڑکی ہے تو فرمایا کہ پردہ کر کے گھر سے نکلے اور اگر لڑکا ہے تو اسے حکم ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھ کر کے چلے۔ اس طرح گھروں کی چار دیوار سے متعلق بہت سے احکامات ہیں۔ پھر کسی کے گھر جانے اور اجازت نامے کے لیے بہت زرور دیا گیا ہے۔ اس طرح کے بیشمار احکامات ہیں جن کے ذریعے یہ بات سیکھائی جارہی ہے کہ اس صنف مخالف کی جانب شیطانی پھندے سے بچا جا سکے۔
بہت سی ہماری بچیاں بن سنور کر گھر سے صرف اس لیے نکلتی ہیں کہ جب کوئی انہیں دیکھے تو وہ ان سے متاثر ہو، مگر جس طرح ایک کھلے پڑے کھانے کی قیمت کم ہوتی جاتی ہے اس طرح وہ بھی اپنا معیار کھوتی جارہی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں آپ کی محبت وہ ہے جو آپ کے لیے رکھ دی گئی ہے۔ جب تک آپ اپنے گھر والی نہیں ہوئیں تب تک آپ کے والدین کے گھر میں ہی بیشمار محبت کرنے والے موجود ہیں جو آپ کے اپنے ہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ آپ کسی اجنبی کو اپنے اس قدر قریب سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی حقیقی محبت کے حقداروں کو بھی نذر انداز کر دیتے ہیں۔
یاد رکھیں اس دنیا میں کوئی بھی شخص آپ کا اپنا نہیں ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر کوئی آپ کو مل بھی جاتا ہے اور وہ آپ کو بہت یقین دلاتا ہے کہ وہ آپ کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے کبھی اس پر مت جائیے گا۔ کیوں کہ اس سوشل میڈیا پر اور بھی بیشمار لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ سنجیدہ ہوسکتا ہے۔ اکثر یہ بات سننے کو ملی ہے کہ ارے فلاں لڑکی ۔۔۔ تو وہ کون سی دودھ کی دھلی ہوئی ہوگی۔میرے ساتھ نہ جانے اور کتنے لوگوں کے ساتھ بات کرتی ہوگی۔ ظاہرہے اتنے لوگ اس کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے بہتر ہے کہ غلیظ محبت کے اس انداز سے بچنے کی حد الامکان کوشش کیجیے۔
Parents
یہاں پر والدین کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی کی ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ضرور آراستہ کریں مگر چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ رکھیں۔ کہیں جدت پسندی ہمیں ذلت کی اتھا گہرائیوں میں نا ڈبو دے۔ جدت اور ترقی جتنی بھی ہو جائے آخر میں اس کا نتیجہ اچھا ہے ملنا چاہیے نہ کہ افسوسناک ۔ نتیجہ محبت کا ایک ہی کلیہ ہے اس کے علاوہ کوئی تعلق بھی شعبدہ بازی ہی ہے۔اگر محبت کے حقیقی کلیے پر عمل نہ کیا تو پھر ہمارے لیے ہی شاید کہا گیا ہے کہ۔۔۔۔۔
گنوا دی ہم نے آباءسے جو میراث پائی تھی ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا