محبت خوب ہے، غیرت مگر اس سے فزوں تر ہے

Blasphemy Protest

Blasphemy Protest

تحریر : محمد عتیق الرحمن
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم۔ جون 1999ء میں برطانیہ کے مشہور شہر مانچسٹر میں School Levenshulme High میں Famous Religious Person کے عنوان سے تقریری مقابلہ ہورہا تھا جس میں ایک بچی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو چنا۔اس نے اپنی تقریر میں ایک دو بار غیر ارادی طور لفظ محمد کے ساتھ “صلی اللہ علیہ وسلم” نہ کہا۔ سامعین میں بیٹھی ایک طالب علم بچی کے چہرے پر غم و غصے کی کیفیت نمودار ہوئی اور جب جذبات برداشت سے باہر ہوئے تو یک دم کھڑے ہوکر با آواز بلند وہ بچی پکار اٹھی” صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم” ۔ مانچسٹر کے مایہ ناز سکول کی طالب علم سے اس طرح کی خلاف ورزی کی امید ہرگز کسی کو نہ تھی اور شاید ان کے قانون کی خلاف ورزی کسی نے اس طرح سے ببانگ دہل پہلی بار کی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ پورے ہال کو سانپ سونگھ چکا تھا ۔ مکمل خاموشی کو توڑتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرنے والی بچی کو فی الفور ہال سے باہر نکال دیا گیا ۔ بعد میں یہودی و عیسائی اساتذہ اور ماہرین نفسیات نے جب بچی سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس مسلمان بچی نے جواب دیا کہ جو شخص نبی مکرم ۖکا نام لے اس پر درود پڑھنا فرض ہوجاتا ہے ۔ میرا ایمانی ودینی فریضہ بنتا ہے کہ میں نبی کے نام کے ساتھ ۖ کہوں آپ کے سکول کا قانون مجھے اس چیز پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

امت مسلمہ کا یہ خاصہ رہا ہے کہ ہردور میں گستاخان رسولۖ کے گرد گھیراتنگ رکھا گیا ہے ۔اپنے دورحکومت میں عدالتی نظام کے ذریعے شاتم رسولۖکو کیفرکردار تک پہنچایاگیا اور اغیار کے دور میں پروانہ شمع رسالتۖ گستاخ کو رائج الوقت قوانین کو روندھتے ہوئے جہنم رسید کرکے ہنستے مسکراتے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکراداکرتے تختہ دار کو چومتے نظر آتے اور آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں !
نمازاچھی،حج اچھا ،روزہ اچھا ،زکوٰة اچھی
مگرمیں باوجود ان کے مسلماں ہونہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی عزت پر
خداشاہد ہے کامل میرا ایماں ہونہیں سکتا

تحریک ختم نبوت ۖ کے وقت چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستانی تمام مکاتب فکر نے مکمل یکسوئی سے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ شمع رسالت ۖ کے پروانے دیوانہ وار محبت مصطفیۖمیں اپنا سب کچھ قربا ن کررہے تھے ۔مائیں اپنے بیٹوں کی برات روک کر حکم دے رہیں تھیں کہ ”بیٹا آج کے دن کے لئے میں نے تمہیں جناہے ۔جائو آقا ۖ کی عزت پر قربان ہوکر دودھ بخشوائو۔میں تمہاری شادی اس جہاں میں نہیں اگلے جہاں میں کرونگی اور تمہاری برات میں آقائے نامدارشافع محشر ۖکو مدعوکروںگی ۔جائو پروانہ وار شہیدہوجائو تاکہ میں فخر کرسکوں کہ میں بھی شہید کی ماں ہوں”طلباء اپنی کتابیں ایک طرف رکھ کر تحریک پر چلتی گولیوں میں شمولیت کو باعث فخر سمجھتے تھے ”کسی نے ایک ایسے ہی کالج کے طالب علم کو پوچھا کہ یہ کیا ؟ جواب میں طالب علم نے کہا آج تک پڑھتا رہاہوں ،اب عمل کرنے جارہاہوں ” بوڑھے خمیدہ کمر کے ساتھ 5سالہ بیٹے کو اپنے ساتھ جلوس میں لے آتے اور باپ نعرہ لگاتا تو بیٹا باپ کا دیا ہواسبق دہرا کر ”زندہ باد” کا جواب دیتااور دوگولیاں باپ بیٹے کو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کرجاتیں ۔علماء کرام اپنا گھربارچھوڑ کر ختم نبوت ۖ کی پاسداری وحفاظت کے لئے اپنی جانیں بندوقوں کی سنگینوں پر رکھ رہے تھے ۔ایک لمبی تاریخ ہے جو پاکستان کے محبان رسولۖ نے رقم کی ہے۔

اب پھر سے گستاخان رسولۖ ایک نئے زاویے سے اٹھے ہیں ۔الحاد وسیکولرازم کے افکار کی آڑ میں مقدس ہستیوں پر دشنام طرازی کی جارہی ہے ۔سوشل میڈیا پر مختلف پیجز وگروپس بنا کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جارہاہے ۔نبی آخرالزمان ۖ اور اسلام کی دیگر مقدس ہستیوں پر کیچڑ اچھالاجا رہاہے ۔مسلمانوں کے دل چھلنی چھلنی کیے جارہے ہیں ۔موچی ،بھینسا وروشنی جیسے پیجز اردوزبان میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چالئے جارہے ہیں ۔پاکستان میںجہاںلسانیت ،صوبائیت اورقومیت پر تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں وہیں قوم کے جذبات سے کھیلنے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی غرض سے فیس بک پر گستاخانہ مواد کو روزانہ کی بنیادپراپ لوڈ کیا جارہاہے ۔گستاخانہ تحریریں لکھنے والوں کو بلاگرز اور سماجی شخصیات کے طور پر پیش کیا جارہاہے ۔سوشل ،پرنٹ والیکٹرونک میڈیا پر ان گستاخوں کی حمایت میں بھی کچھ آوازیں بلند ہوتی نظر آتی ہیں ۔جہاں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ان شاتمان رسول ۖ کے ساتھ ہمدردی کرتے نظر آتے ہیں وہیں پاکستانیوں کی اکثریت شدید غم وغصے کی کیفیت میں مبتلا ہے اورعلماء کرام میں سے بھی کچھ بڑے اور معتبرنام اس سلسلے میں کام کررہے ہیں ۔تُف ہے حکومت وقت پر جو عدالتی حکم کے باوجود بھی سوشل سائٹس پر اس طرح کے پیجز کو بندکرنے اور ان کے ذمہ داران کو پکڑنے کی کوشش نہیں کررہی ۔ 07-03-17بروز منگل کوہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کیس کی سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تکنیکی امور میں نہیں پڑنا۔ اس حساس معاملے میں پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کروں گا، بھینسا ، گینڈا ، کتے یا سور سب بلاک ہونے چاہئیں اگر بلاک نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کردیں۔

اس موقع پرعدالت نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ عدالت میں پیش ہو کر بتائیں کہ حکومت نے اس اہم ایشو پر اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیںلیکن بدھ کے روز وزیر داخلہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے ۔ریمارکس کے دوران جسٹس صدیقی محبت مصطفیۖ میں آبدیدہ ہوگئے اور اہل پاکستان کو بتادیا کہ ابھی عدلیہ میں عشق مصطفی رکھنے والے افراد موجود ہیں ۔جسٹس صدیقی نے مزید کہا کہ یہ معاملہ بیورکریسی پر نہیں چھوڑیں گے ،معاملے میں ملوث عناصر اور جو تماشہ دیکھتے رہے دونوں کیخلاف کاروائی ہوگی اگر گستاخانہ مواد نشر کرنیوالوں کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں امن و امان کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بدھ کے روز سماعت کے ریمارکس میں ایسے افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا جو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شائع کرنے کے مرتکب ہیں۔یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ جسٹس صدیقی نے ایک اور طرف بھی اشارہ کردیا ہے کہ اگر ریاست ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی تو لوگ باہر نکلیں گے اوروہ خود کارروائی کرگذریں گے۔

ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنایاگیا تھا جس کی بنیاد ”لاالہ الا اللہ”ہے۔اس کی بنیادوں میں کلمہ گو بزرگوں،بھائیوں ،بیٹوں ،بہنوں ،مائوں اور بیٹیوں کا خون شامل ہے اور اس میں مسلمان مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کی پھٹی ہوئیں چادروں کی چھائوں شامل ہے۔مسلمان چاہے اپنے علم وعمل میں کیسا ہی کوتاہ نظر ہو لیکن ایک ہستی ایسی ہے جس کے لئے وہ جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے ۔ وہ ہستی محمد عربی ۖ کی ہستی مبارک ہے ۔ہمارے پاس ایک ہی تو ہستی ہے اگر اس کی محبت کو بھی اس طرح سے ہمارے دلوں سے نکال دیا گیااور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان بن کر رہتے رہے تو پھر ہمارا ایمان ایمان نہیں ہوگا !اسلام دشمن قوتیں ہم سے ہمارے نبی مکرم ۖ کی محبت چھین لینا چاہتی ہیں ۔حکمران طبقے کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان اپنے ہر کام میں غافل ہوسکتا ہے لیکن ناموس رسالت اور حب نبویۖ ان کو اپنی جان ،مال ،اپنے وطن ،اپنی آل اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔محبت نبوی ۖ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔حکومت وقت اس حساس مسئلے کو سمجھتے ہوئے بغیر کسی روک ٹوک اور بیرونی دبائو کے جلد ازجلد کارروائی کرے اور گستاخان رسول ۖ کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عزت اورذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔اگر وہ اقتدار دے سکتا ہے تواقتدار چھین بھی سکتا ہے ۔خدارا!امت مسلمہ کا مزید امتحان نہ لیا جائے ۔مسلمان اسلام دشمن قوتوں کو عملی طور پر مسلمان بن کر دکھائیں ۔محبت رسول ۖ کو اپنی زندگی میں لے کر آئیں تاکہ ہم چلتے پھرتے مبلغ بن کردنیا کو اسلام کی اصل تصویر دکھاسکیں ۔علماء کرام سے میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتاہوں کہ جیسے آپ نے تحریک ختم نبوتۖ چلائی تھی ویسے ہی ناموس رسالت ۖ کے لئے نکل کھڑے ہوں ۔آج کا نوجوان آپ کی طرف دیکھ رہاہے ۔ فروعی ،سیاسی ،سماجی ومعاشرتی اختلافی مسائل چھوڑ کر یک جان ہوکر نبی ۖکی حرمت کے لئے پروانہ وار نکلیں اور دنیا کو دکھلا دیں کہ
سربلندی پھر وفا کی دیکھنے میں آگئی
پھر وفا کے نام پر کچھ لوگ ہارے زندگی

Muhammad Atiq ur Rehman

Muhammad Atiq ur Rehman

تحریر : محمد عتیق الرحمن
03216563157