تحریر : محمد نواز بشیر ایک طوائف کی بیٹی جوان ہوئی تو ایک دن اپنی ماں سے پوچھنے لگی کہ اماں محبت کیا ہوتی ہے؟ طوائف جل کر بولی پگلی مفت عیاشی کے بہانے ہمارے ہاں زیادہ تر محبت کی شادیاں نفر ت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہوتا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے انکو ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں وجہ بہت آسان ہے بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا پانی بھی پیتا تھا گانے بھی گاتا تھا لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا۔ اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے قید سے نہیں۔ ہمارے ہاں متضاد حساب ہے جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرناروز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا۔
لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیںجان اب تم نے اپنے کسی Male کزن سے بات نہیں کرنی کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خرید نا وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلاکرو’ مجھے اچھا نہیں لگتامحبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے’ لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر آنا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہوجائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔غور کیجئے ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر سکول کی فیس دیتے ہیںخود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے کرآتے ہیں لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیںہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیںیہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اْن سے محبت ہوتی ہے۔
اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیںلیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہوناان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اْتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے میں نے کہا ناں محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ‘ ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں’اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
Love
مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے ٹینشن سے رہائی تنہائی سے رہائی مایوسی سے رہائی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے اور محبت کرنے والی دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیںیہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی۔ لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ دن دوگنی اوررات چوگنی ترقی بھی کرتی ہے۔ہمارا المیہ ہے کہ اکثر ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے یہ محبت کا ایک جزو تو ہوسکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی بالکل ایسے جیسے راقم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے تو اْس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی راقم نہیں کہے گا’ راقم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا۔ ویسے بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے۔محبت زندان نہیں ہوتی حوالات نہیں ہوتی جیل نہیں ہوتی بند کمرہ نہیں ہوتی کال کوٹھڑی نہیں ہوتی محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے۔
ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔ غلط ہے محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے اس کے تقاضوں سے واقف نہیں۔
ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے۔میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے رہ گئی بات انا کی تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائیڈ ایفیکٹس بہت ہیں۔