تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مکہ سے تقریباً دو میل دور کوہِ حرا کے ایک غار میں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان کائنات کے مشاہد اور اِس کے پیچھے کار فرما قدرت نا درہ پر غور فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قوم کے شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بلکل اطمینان نہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی جہالت پر بہت پریریشان تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بے جان بتوں کی پرستش ہوتی تو بہت دل گرفتہ ہوتے ۔ معاشرے میں ظلم و فساد عام تھا صدیوں سے بے بس بے سہارا لوگ طاقتوروں کی زیادتیوں کی چکی میں پس رہے تھے ۔ بے حیائی بے شرمی اور بد اخلاقی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی لڑکیاں دفن کی جارہی تھیں طاقتور قبیلے کمزورقبیلوں کو محکوم بنائے جارہے تھے ۔ کسی کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ تھی ۔ ظلم و جبر اور پریشان کن حالات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حساس طبیعت کے لیے نا قابلِ برداشت بوجھ ثابت ہو رہے تھے ظالمانہ نظام میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی اِس گہرے سوچ بچار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کو خلوت گزینی کی طرف مائل کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تنہائی پسندی تھی درحقیقت اللہ تعالی کے ماسڑ پلان کا حصہ تھی ۔ اِس طرح خالقِ ارض و سما آپ ۖ کو آنے والے عظیم کام کے لیے تیار کر رہا تھا ۔ کیونکہ جس روح کے لیے بھی یہ مقرر ہو کہ وہ انسانی زندگی کے حقائق پر اثر انداز ہو کر ان کا رخ بدل ڈالے تو اس کے لیے یہ ضروری ہو تا ہے کہ وہ زمین کے مشاغل اور زندگی کے دستور اور لوگو ں کے چھوٹے چھوٹے غموں سے کٹ کر کچھ عرصہ الگ اور خلوت نشین رہے ۔ مشیتِ الٰہی نے اسی سنت کے مطابق روئے زمین کو بدلنے اور خطہ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار کرنا چاہا تو رسالت کی عظیم ذمہ داری سونپنے کے لیے تین سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خلوت گزینی مقدر کر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں تشریف لائے ہوئے تیسرا سال تھا یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ بیداری کر تے ۔ مسلسل روزے رکھتے کبھی کبھار غار سے نکل کر چہل قدمی بھی فرماتے اور پھر غار میں تشریف لے جاتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ستو اور پانی لے کر یہاں آتے یہ ایک مختصر سا غار تھا جس کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے یہ نیچے سے گہرا نہیں ہے بلکہ ایک مختصر راستے کے بازو میں اوپر کی چٹانوں کے تاہم ملنے سے ایک کوتل کی شکل اختیار کئے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب اور خدمت گذار بیوی بھی ساتھ ہوتیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت مراقبہ اور غور و فکر میں مشغول ہو جاتے تو وہ قریب ہی رہتی یا واپس گھر چلی جاتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا رمضان یہاں ہی گزارتے آنے جانے والے مسافروں کو بھی کھانا کھلاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں آتے ہوئے تیسرا سال تھا تو اب اللہ تعالی نے چاہا کہ روئے زمین کے با شندوں پر اس کی رحمت کا فیضان جاری ہو چنانچہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے مشرف کیا اور اپنے فرشتے جبرائیل کو قرآن مجید کی چند آیات دے کر بھیجا۔
Ramadan
یہ واقعہ رمضان المبارک کی ٢١ تاریخ کو دو شنبہ کی رات پیش آیا اگست کی 10 تاریخ اور سن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 610 عیسوی تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال چھ مہینے بارہ دن تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ تھے۔ تاریخ انسانی کا وہ اہم اور عظیم الشان واقعہ جس نے تقدیر عالم کا رخ بدل دیا ۔ نسل انسانی جو صدیوں سے ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہی تھی اُس کی غلامی کا خاتمہ اور آزادی اور امن کا نیا دور شروع ہوا ۔ پہلی وحی کے نزول کی تفصیل جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے خود رحمتِ مجسم کی زبان مبارک سے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے وہ اِس طرح ہے۔
ایک فرشتہ میرے پاس آیا اس نے کہا پڑھو میں نے کہا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اِس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر بھینچا یعنی دبایا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے کہا میں تو پڑھا ہو انہیں ہوں اس نے دوبارہ پکڑ کر مجھے دبایا بھینچا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی اور مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا پڑھو میں پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تو فرشتے نے مجھے تیسری دفعہ پکڑ کر دبایا اور اتنا دبایا کہ وہ تھک گیا اور میری قوت برداشت جواب دینے لگی اور پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو (اے نبی ۖ ) اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے کس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیاجسے وہ نہیں جانتا ۔ (سورہ علق آیت نمبر ١تا ٥)۔تھوڑی دیر بعد رحمتِ دو عالم ۖ اضطراب کے عالم میں بیدار ہو گئے تو آپ نے دل میں سوچا میں نے کیا دیکھا ۔ رحمتِ دو جہاں ۖ حیران تھے کہ جو کچھ دیکھا اِس کا سبب کیا ہو سکتا ہے اور پھر آپ ۖ اپنے گھر کی طرف چل پڑے بار بار دل میں ایک ہی سوا ل آرہا تھا کہ وہ کون تھا جس نے مجھے پڑھنے کو کہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنہیں خیالوں میں چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک آوا ز آئی جیسے کوئی پکار رہا ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا تو وہی فرشتہ انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آوازیں دے رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک گئے لیکن فرشتے کی طرف منہ موڑ لیا لیکن حیرت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر بھی دیکھتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادھر فرشتے کی شکل نظر آرہی تھی ساقی کوثر کبھی قدم آگے بڑھاتے کبھی پیچھے لیکن فرشتے کی شکل آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو رہی تھی ۔ کافی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ کیفیت طاری رہی ۔ اِسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفادار محبوب بیوی کی کنیز اُدھر آگئی جسے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش کے لیے پہاڑ پر بھیجا تھا۔ اب فرشتہ روپوش ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کی طرف چل پڑے ۔ اس واقعہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عجیب کیفیت کر دی تھی ۔ گھر پہنچے تو محبوب بیوی چشم براہ تھیں خاوند کی حالت دیکھ کر وجہ پو چھی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دیکھا وہ سب بتا دیا۔
Muhammad
سب سن کر محبوب بیوی بولیںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تا دیر سلامت رہیں اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اِس امت کی پیغمبری کے منصب پر فائز کیا جائے گا اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقار میں فرق نہیں آنے دے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں۔ صدق مقالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ ہے ۔ دوسروں کے لیے تکلیف برداشت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیواہ ہے ۔ مہمانوں کی خاطر مدارت کی راہ میں مصائب و آلام مردانہ وار برداشت کر تے ہیں محبوب خدمت گزار بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کمبل ڈال دیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار کہہ رہے تھے مجھے چادر اوڑھا دہ مجھے چادر اوڑھا دو۔ بیوی کی باتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکون ملا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیک سیرت اور خدمت گزار بیوی کا نام تھا حضرت خدیجہ بنت ِ خویلد تمام اہلِ ایمان کی وہ بزرگ ترین ماں جس نے فہم و فراست تد بُر حکمت ایثار و قربانی و فاشعاری خدمت و اطاعت سیلقہ شعاری وہ معاملہ فہمی محبت اور دل سوزی کے وہ روشن مینار قائم کئے کہ جن کی نورانی شعائوں سے رہتی دنیا تک پوری انسانیت روشن رہے گی ۔اِس عظیم ترین ماں نے سیرت و کردار کی پاکیزگی حوصلہ مندی جرا ت و ہمت کی بدولت وہ مقام اور کردار ادا کیا ہے کہ پوری مسلم اُمہ آپ کی احسان مند ہے اب مسلمانوں کی ہر بیٹی فخر کے ساتھ سر بلند کر کے کہہ سکتی ہے کہ ہمارا تعلق اِس طبقے سے ہے جس کی امام اور سر خیال سیدہ طاہرہ خدیجہ الکبری ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم ان کی روحانی بیٹیاں ہیں۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956