تہذیب انسانی کی صبح اولیں میں شاعری نے سحر اور موسیقی کے پردوں میں جنم لیا کیونکہ انہی ذرائع سے انسان اپنی قوت عمل اور قوت تسخیر دونوں کو آزماتا ہے اس لئے شاعری انسانی شعور کی گہرائی ،گیرائی اور قوت میں اضافہ کرتی ہے جدید شاعری ایک نیا انسانی احساس اور نیا ادراک لیکر پیدا ہوئی جو الجھنوں کو مٹاتی ،رومان کے پردے الٹتی اور جراحتوں کے چمن کھلاتی نظر آتی ہے طلسماتی فضائوں کے تصورات میں کھوئے ہوئے شاعر کو پڑھنے والے لوگ ،سہمے ہوئے ،گھبرائے ہوئے لیکن خواہشوں کی کھوج میں اُس دھند کے پار والے جنگل میں داخل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں جہاں اُنہیں رنگ برنگے لفظ ،پراسرار مناظر کی تصویروں میں سموتے لفظ ،اپنی مہک میں جذب کرلینے والے لفظ چیل کی طرح کھینچ کر لے جاتے ہیں اور پھر کبھی نہیں چھوڑتے جنوبی پنجاب میں رضا کاظمی کی شاعری ایک نیا آہنگلیکر طلوع ہوئی ان کی شاعری روایت سے ہٹ کر ہے ان کا شعری مجموعہ ”مشعل جاں ”سوچ کے بند دریچوں پر دستک دیتا ہے۔ اپنے جذبات کو سنگسار کیا لفظوں سے تیرے لفظوں کو تغزل کی قبائیں بخشیں جس کو ہر موڑ پہ عریاں کیا لوگوں نے ہم نے اُس حسن کو حرفوں کی ردائیں بخشیں
اپنی تخلیق کے ذریعے وہ علم و شعور سے واقف شاعری کی راہوں میںمشعل جاں لیکر روانہ ہوئے ہیں ان کا شمار اُن شعراء میں کیا جاسکتا ہے جو فن کی بالیدگی اور شعور کی پختگی سے قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں رضا اس پر دسترس اور عبور رکھتے ہیں ان کا ایک شعر کہ ! اہل دل بے سدھ پڑے تھے وحشتوں کے شہر میں لوگ پاکیزہ لہو سے جب وضو کرتے رہے
ہر شاعر اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ منطقی استدلال کو اپنائے بغیر اپنے دل کا مدعا اس طرح بیان کرے کہ قاری کو احساس ہو کہ یہ تو اُس کے دل کا راز تھا اُس کے لفظوں اور نظموں کا اپنا موسم ہے ہم جو اپنے شعور سے اپنے ہی تعلق کو نہیں جانتے وہ تعلق جس کا ادراک رضا کاظمی کو عام لوگوں سے ممیز کرتا ہے خیال و شعور کو مربوط کرنے میں وہ اپنے فن کی انتہا پر ہیں۔ میرے شعور کو جس نے تمازتیں بخشیں سجھائی دیتا ہے اب بھی یہیں کہیں مجھ کو اپنے دل کو تخلیقی پیکروں سے آباد کرکے غزل گو شاعر حسن ِ ازل کا جلوہ خود ہی نہیں دیکھتا بلکہ دوسروں کو بھی اُس کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا دیتا ہے وہ اپنی تخیل نگاری کو حقیقت نگاری سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے اس لئے کہ تخیل ہی اُس کے نزدیک اصل حقیقت ہے رضا نے اس حقیقت نگاری کو یوں اجالا ہے۔
جہاں ہو خون کی ہولی ہمیشہ کوئی ٹھہرے گا اُس بستی میں کب تک
ہجر اور ویرانیوں کی کیفیات اور دُکھ کی لہریں تو اُن کی غزلوں اور نظموں کے حوالے ہیں مگر شعورِ ذات کی زیریں لہریں بھی ہیں جو غمِ جاناں کی شدت کا اظہار کرتی ہیں اُن کا عشق روایتی نہیں بلکہ جذبوں میں ٹھہرائو اور توازن ہے نگار خانہ دل میں جو تصاویر ہیں اُن میں شائستگی اور وقار ہے وہ محبت کے نازک اور لطیف معاملات سے بخوبی واقف ہیں اِس لئے نئے امکانات کی تلاش میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
چُن لیا تونے جسے نایاب گوہر ہو گیا دور جو تجھ سے ہوا وہ شخص پتھر ہو گیا درد کا سایہ حصارِ بے حسی کو توڑ کر جھیل سی آنکھوں میں اُترا تو سمندر ہوگیا
رضا نے اپنے شعری مجموعے ”مشعل جاں میں جو لفظ بکھیرے ہیں وہ اُنکی ذہنی و قلبی کیفیت کے غماز ہیں جب انسان یہ سوچ لے کہ اُسے دوسروں کیلئے مسکرانا ہے اور دُکھ اُس کے جیون کے سہارے ہیں جن کے ساتھ چلنا ہے یہ وضاحت ضروی ہوتی جارہی ہے کہ رضا کا کینوس محض محبت تک محدود نہیں اُس کے ہاں موضوعات کی اچھی خاصی وسعت نظر آتی ہے جیسے لڑیں گے آندھیوں سے زرد پتے ہم ایسے حوصلے پیدا کریں گے
عصر حاضر کے معروف اور منفرد افسانہ نگار ،شاعر ،پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ نے رضا کاظمی کی شاعری کو یوں اپنے تجزیہ میں پرویا !
”رضا کاظمی کے ہاں اظہار کا ایسا پیرایہ ہے جو جدید اور قدیم کا سنگم بن جاتا ہے اُس کی شاعری میں بھاری بھر کم تراکیب نہیں ہیں مگر بے ساختگی اور سادگی کی من موہنی کیفیت ہر شعر اور مصرعے میں جھلکتی ہے اُن کے ہاں ذاتی وارداتیں شخصی تجربات اور منفرد طرز احساس جب شعر کا روپ دھارتے ہیں تو قاری اور سامع پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور جب وہ اجتماعی فکرو احساس اور اجتماعی مسائل کا ذکر کرتا ہے تو قاری یا سامع کے انفرادی احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے ”۔
یہ حقیقت ہے کہ قاری رضاکاظمی کے ایک ایک شعر کو اپنے شعری ذوق کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے اور بہت توجہ کے ساتھ ہر غزل اور نظم کو نہ صرف پڑھتا ہے بلکہ محسوسات کے اُس مقام کو چھوتا ہے جہاں رضا کاظمی ہیں لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے کسی بھی تخلیق کار کی ابتدا اور اُس میں بیان کی گئی سوچ صرف اور صرف تخلیق کار کی ہوسکتی ہے سننے ،پڑھنے اور دیکھنے والے تو رائے قائم کرلیتے ہیں کبھی اچھی تو کبھی ہلکی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ رضا کا شعری مجموعہ ”مشعل جاں ”جس سوچ اور خیال کے تحت صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا اس میں قاری نہ صرف ہر امکاں کو اپنے لئے بہتری سمجھ کر پڑھتا ہے بلکہ اُس پر ایک ایسا در وا ہوتا ہے جو شاعری کی طلسماتی دنیا میں اپنے ماحول اور اپنے الفاظ کے ذریعے سب کو جکڑ لیتا ہے وہ خاموش طبع ہیں لیکن اُن کے اشعار باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس کی سماعت سے ٹکرائے اُس کے دل کی تاروں کو چھو کر گزرے۔