محبت میں اعلیٰ ترین جزبہ اللہ پاک سے سچی محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت ہی محبت کا وہ بلند ترین جذبہ ہے جس کے تحت انسان اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جس نے اللہ تعالیٰ سے سچی محبت کی اور اللہ کی آزمائشوں سے کامیابی سے گزرا تو سمجھو وہ دنیا میں بھی کامیاب ہو گیا اور آخرت میں بھی کامیاب ہو گیا۔اللہ سے محبت یکطرفہ نہیں ہوتی جہاں انسان اپنے پیدا کرنے والے اللہ سے محبت کرتا ہے وہاں اللہ بھی اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ یہ انسان کی اللہ سے محبت ہی تو ہے جو دنیا کے لوگوں کو ایک رشتہ انسانیت میں جوڑے ہوئے ہے۔
حضرت محمدۖ سے محبت اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی، انبیا اور رسول بھیجے اور اپنے سب سے پیارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا اپنی مقدس کتاب قرآن مجید آپ پر نازل فرمائی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے دین اسلام پسند فرمایا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے مسلمان ہیں۔ مسلمان اپنے پاک نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی عقیدت اور بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں۔
مسلمان اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذرا سی بھی گستاخی یا توہین برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ اہل ایمان جانتے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تو اپنی امت سے بے پناہ محبت کی ہے انہوں نے بھی تو اپنی ہر عبادت میں اور ہر نماز میں رات کی تنہائیوں میں اپنی امت کی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگی ہیں۔ محبت رسول ۖ کے بغیر ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ وطن سے محب بھی قانون فطرت ہے
اپنے وطن کی مٹی اپنے وطن کے پہاڑوں، دریائوں، وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، سرسبز میدانوں غرض کے وطن کے ایک ایک گوشے سے محبت ہوتی ہے۔ انسان کی اپنے وطن سے لازوال محبت ہی تو ہے کہ وہ اپنے وطن کی محبت کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ والدین سے محبت ۔اولاد اور والدین کی محبت روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ والدین کی محبت جہاں کامیابی سکون مہیا کرتی ہے وہاں جنت میں اعلیٰ مقام کا سبب بھی بنتی ہے۔
رشتے داروں سے محبت۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے رشتے داروں سے حسن سلوک کا سبق دیا ہے اور یہ فطرتی محبت کا موجب ہے۔ لیکن ! بعض اوقات ۔ ساری محبتوں میں ایک ایسی محبت بھی ہے جو کسی ایک خاص فرد کے لیے ہوتی ہے۔ اس محبت میں انسان کی نیند اڑ جاتی ہے ساری رات جاگ کر آسمان پر تارے گنتا ہے کام کاج میں دل نہیں لگتا ہر وقت کسی کا تصور دل میں بسا ہوتا ہے۔ یہ محبت یکطرفہ بھی ہوسکتی ہے اور دو طرفہ بھی یعنی دونوں طرف محبت کی آگ کا دیا روشن ہوتا ہے۔
محبت کی مختلف اقسام ہیں لیکن ویلن ٹائن ڈے کو کسی بھی صورت محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ‘ویلن ٹائن’ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا
ویلنٹائن کا جرم قبولیت مسیح ۔قدیم رومی اپنے مشرکانہ عقائد کے اعتبار سے خدائی محبت کی محفلیں جماتے تھے، اس کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومیوں کے دور میں ہوا جب کہ اس وقت رومیوں میں بت پرستی عام تھی اور رومیوں نے پوپ ویلنٹآئن کو بت پرستی چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرنے کے جرم میں سزائے موت دی تھی لیکن جب خود رومیوں نے مسیحیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کی سزائے موت کے دن کو یوم شہید محبت کہہ کر اپنی عید بنالی ویلنٹائن کا جرم شادی کرانا۔اس کی تاریخ مسیحی راہب ولنٹینس یا ویلنٹائن سے یوں جڑی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل و عیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔
یونانی دیو مالایہ دن یعنی 14 فروری کا دن رومی دیوی یونو (جو یونانی دیوی دیوتاؤوں کی ملکہ اور عورتوں و شادی بیاہ کی دیوی ہے) کا مقدس دن مانا جاتا ہے جب کہ 15 فروری کا دن ان کے ایک دیوتا لیسیوس کا مقدس دن ہے (ان کے عقیدے کے مطابق لیسیوس ایک بھیڑیا تھی جس نے دوننھے منھے بچوں کو دودھ پلایا تھا جو آگے چل کر روم شہر کے بانی ہوئے قصہ مختصر ! ویلن ٹائن ڈے کوکسی بھی صورت محبت کا دن نہیں کہا جا سکتا ۔ عورت کو ورغلایا جا رہا ہے پھولوں کے دستے ، تحفے یا دعوتوں کے جالوں میں پھنسا کر ۔ اللہ کے پارے محبوب ۖ کے صدقے اللہ کے پسندیدہ دین اسلام نے جو عورت کو مقام دیاہے وہ محبت کے ایک دن یا ایک تحفہ کی محتاج نہیں جیسا کہ حبیب خدا ۖ نے کیا مقام کیا شان کیا مرتبہ عورت کو دیا ہے۔
قربان نبی خر الزماں حضرت محمد ۖ پر ، عورت کو نبی ۖ نے وہ مقام دیا کہ اگر یہ بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے چنانچہ سنن نسائی،صحیح الجامع اورصحیح ابن حبان میں ارشادِ نبوی ۖ ہے: یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے (نسائی، ابن حبان، صحیح الجامع)۔
عورت اگر ماں ہے تو فرمایا اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے، جیسا کہ صحیح الجامع میں نبی ۖ کا ارشاد ہے۔ بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ترمذی میں نبی اکرم ۖ نے فرمایا ہے: جو شخص اپنی دو بیٹیوں(یا بہنوں) کو تربیت دے کر انکی شادی کردے،اسلامی تربیت پر اللہ رب العزت ان بیٹیوں (بہنوں)کو اس کیلئے جہنم کی راہ میں دیوار بنادیگا۔(مسلم، ترمذی)
ویلن ٹائن ڈے منانا محبت نہیں محبت کے ساتھ دھوکہ ہے۔ محبت کسی مخصوص دن کی محتاج نہیں ۔ آج کی عورت اگر محبت کی متلاشی ہے تو وہ محبت ویلن ٹائن ڈے کے بناوٹی پھولوں میں تلاش کرنے کی بجائے حقیقی محبت اللہ اور اللہ کے پیارے رسول ۖ کی دی ہوئی عزت میں تلاش کرے ، انشااللہ پھر محبت کیا ہے وہ جسموں کی بجائے روحوں کو محسسوس ہوگی ان شااللہ