رنگ، مذہب نہ عقیدے کی تجارت کیجے

Dream

Dream

رنگ، مذہب نہ عقیدے کی تجارت کیجے
عکسِ یزدان ہے، انساں سے محبت کیجے

اپنی آنکھوں کوبھی پابندِ نصیحت کیجے
اب کوئی خواب سجانے کی نہ جرات کیجے

ہاتھ میں ریت ہو یا آنکھ میں پانی صاحب
کب ٹھہرتے ہیں بھلے جتنی حفاظت کیجے

اپنی بنیاد سے اکھڑی ہوئی دیواروں پہ
کیسے تعمیر بھروسے کی عمارت کیجے

کب تلک بھوک کی سولی پہ جسم لٹکے گا
روٹیاں چھین کے کھانے کی جسارت کیجے

ہرکوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں ہے یہاں
ایسے ماحول میں کیا خاک محبت کیجے

(فخرلالہ)