تحریر: عفت اس نے کچرا کنڈی میں پڑے شاپر کو ڈنڈی سے ٹٹولا پھر جھک کر شاپر اٹھا لیا ۔جو تھوڑی دیر پہلے اوپر کی کھڑکی سے کسی نے پھینکا تھا ۔شانو نے اسے اٹھایا اس میں کچھ پرانے کاسمیٹکس ،اور پرفیوم کی خالی بوتل تھی۔شانو کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اس نے شاپر ٹوٹی لپ اسٹک اور ٹوٹے آیئنے والا فیس پاوڈر اپنے پرانے سے دوپٹے کے پلو میں باندھ لیا ۔شام تک وہ مختلف جگہوں سے کچرا چنتی رہی اور مغرب کے وقت اپنی جھگی میں لوٹی ۔ایک کھلے میدان میں سات آٹھ جھگیاں جہاں خانہ بدوشوں کا ایک خاندان آباد تھا ۔شانو بھی ان میں سے ایک جھگی میں رہتی تھی ۔اس نے آتے ہی کچرے کا تھیلا حقہ پیتے ابا کے سامنے رکھا اور خود اند ر کی طرف بڑھ گئی اس کی اماں ایک کونے میں بیٹھی گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کر سلگانے کی کوشش میں مصروف تھی ۔ماں نے اچٹٹتی سی نظر شانو پہ ڈالی ۔آ گئی تو ۔کچرا دے کے نہیں آئی ؟ نہ اماں یہ کام ابا کو بولا کر او مجید بابا منے گھور گھور کے دیکھے ہے میں نہ جائوں ۔شانو نے تڑ سے جواب دیا۔
اچھا اچھا میں کل خیرے کو کہہ دیووں گا تو روٹی کھا لے اس کا ابا حقہ گڑگڑاتے ہوئے بولا ۔ شانو میدان میں لگے ہینڈ پمپ پہ منہ دھونے چل دی۔لالٹین کی ٹمٹماتی لو جھگی کی تاریکی میں جگنو کی مانند چمک رہی تھی ۔ملگجے بستر پہ کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے دن بھر کے منظر گھومنے لگے۔سگنل پہ رکی گاڑی میں بیٹھی خوب صورت عورت جس کے ساتھ بیٹھا اس کا مرد جو اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا ۔راستے سے گذرتی ہوئی بے داغ یونیفارم میں ملبوس بچیاں اور بچے ،بازار میں خرید و فروخت کرتے مرد وعورتیں اور ان کی انگلیاں تھامے ضدیں کرتے اٹھلاتے بچے ۔گلیوں میں سبزی کے ٹھیلے پر کھڑی خواتین جو سبزی کی قیمت پہ لڑتی جھگڑتی تھیں اور کھڑے کھڑے آپس میں گپ شپ بھی کرتیں ،ساس نندوں کے دکھڑے بھی رو لیتں ۔گویا سبزی کا ٹھیلا ایک چوپال تھا جہاں محلے بھر کے مسائل بھی ڈسکس کر لیے جاتے تھے۔
Modern House
بڑی بڑی کوٹھیوں والی بیگمات جن گھروں اور جسموں سے خوشبو کی لہریں نکلتی تھیں ،شانو کو یہ سب بہت اچھا لگتا وہ ان جیسی زندگی کی متمنی تھی ۔اس کا بھی دل کرتا اس کا بھی ایک گھر ہوتا ایک گھر والا ہوتا ۔وہ بھی گھر کو سجاتی سنوارتی مگر ان کی قسمت میں ٹہرائو کہاں تھا وہ تو صدیوں کے آوارہ گرد تھے ۔گلیوں میں کچرا چنتے پیدا ہوتے اور اسی طرح جوان ہوتے اور پھر مر جاتے جہاں دل کرتا پڑائو ڈال لیتے جب دل کرتا آگے کی راہ لیتے ۔سارا ملک ان کا تھا اور سارا آسماں ان کی پناہ گاہ تھا ۔صبح نمودار ہو گئی تھی مگر شانو کا دل کام پہ جانے کو زرا نہ کیا وہ کسلمندی سے پڑی رہی ۔کافی دیر ہوگئی تو اس کی ماں نے آکے اسے جھنجھوڑا ۔اری اٹھ دیکھ دن چڑھ آیا ہے آج کام پہ نہیں جائے گی کیا ؟ ماں میرا جی اچھا نہیں سونے دے اس نے چادر منہ تک کھنچی۔
ماں بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل آئی۔ شانو کے ابا آج چھوری نا ہی جاوت ہے تئیں آپی چلا جا ۔فیکا لنگڑاتا ہوا اٹھا اسے کیا ہوا ہے ؟ منے کیا پتہ میں پانی بھرنے جا رہی تئیں آپ ای اپنی لاڈو رانی سے پوچھ لئیو ۔ شانو ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی ۔بے زار ہو کہ اٹھ بیٹھی ۔بھاگاں اس کی سوتیلی ماں تھی اس نے ابا سے سن رکھا تھا کہ اس کی ماں بہت خوبصورت تھی ،بالکل اس جیسی ۔اس کے چچا کو کچھ لوگوں نے قتل کر دیا تھا اس کی ماں تاوان میں آئی تھی ۔اس کے دادا نے اس کے باپ سے اس کی ماں کی شادی کر دی اس کے تو بھاگ کھل گئے مگر خدا کا کرنا شانو ایک سال کی تھی کہ اس کی ماں ایک وبائی بیماری کا شکار ہو کر چل بسی ۔ فیکے نے شانو کی پرورش کے لیے دوسری شادی کر لی۔
بھاگاں کی اپنی تو اولاد نہ ہوئی شانو کو توجہ ضرور مل گئی ۔نہ کبھی بھاگاں نے شانو کو جتایا نہ کبھی شانو نے محسوس ہونے دیا بس زندگی ایک ڈگر پہ چل رہی تھی ۔شانو اٹھارہ سال کی ہو رہی تھی فیکے کو اب اس کی شادی کی فکر ہوئی رواج کے مطابق اس کے قبیلے میں شادی کی عمر کی حد چودہ سے اٹھارہ سال تھی ۔فیکے نے پانچ بھیڑیں اور تین بکریاں اس کو جہیز میں دینے کے لیے رکھ لیں تھیں اور پچاس ہزار شادی کا خرچ بھی موجود تھا ۔اسے اپنے قبیلے کے مکھیا کا انتظار تھا کہ کب وہ شانو کا رشتہ طے کر کے اسے خبر دیتا ہے ۔ان کے قبیلے کا یہ رواج تھا کہ جب کسی کے پاس بیٹی کا جہیز اور خرچ جمع ہو جاتا تب مکھیا کو خبر کر دی جاتی اور وہ لڑکی کا رشتہ طے کر دیتا۔
Wedding
ادھر مکھیا کا پیام ملا کہ اس نے شانو کی شادی دو ماہ بعد شکورے سے طے کردی تھی جو دوہاجو تھا اس کی پہلی بیوی اسے چھوڑ چکی تھی ۔اس نے مکھیا کو کچھ دے دلا کر رشتہ اپنے حق میں کروا لیا تھا ۔شانو کو جب خبر ملی تو اسے بہت غصہ آیا ۔اس نے بھاگاں سے شکوہ کیا تو تو اس نے سنی ان سنی کر دی ۔شانو خاموش ہو گئی ۔مکھیا کا فیصلہ پتھر پہ لکیر تھا ۔وہ خیالوں میں گم تھی کہ اسے کسی نے آواز دی ۔اے لڑکی ، اس نے سر اٹھا کر اوپری کھڑکی کی طرف دیکھا ۔ایک آدمی کا چہرہ نظر آیا ۔شانو نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا ۔جانا مت ایک منٹ رکو آدمی نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔دو منٹ میں وہ شانو کے سامنے تھا ۔کتنا کما لیتی ہو یہ کچرا بیچ کر؟ اس نے شانو سے پوچھا ۔کبھی سو کبھی ڈیڑھ سو شانو نے دبے لہجے میں کہا ۔روز کے پانچ سو کمانا چاہتی ہو؟ آدمی نے نرمی سے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔شانو کی آنکھیں پانچ سو سن کر پھیل گئیں۔
کک کیسے؟؟ شانو نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ،آئو میرے ساتھ ۔آدمی نے اسے اشارہ کیا اور یہ تھیلا یہیں چھوڑ دو ۔شانو اس کے ساتھ کوٹھی میں داخل ہوئی ۔ وہ ششدر نظروں سے کوٹھی کی آرائش دیکھ رہی تھی ۔ایک ہال کمرے میں ایک ایزل پہ کینوس لگا ہوا تھا جس پہ کچھ آڑی ترچھی لکیریں تھیں ۔بیٹھو ،میرا نام احمد کمال ہے میں ایک مصور ۔۔ آں میرا مطلب ہے تصویریں بناتا ہوں میں تمھاری تصویر بنانا چاہتا ہوں روز کے پانچ سو دوں گا بولو منظور ؟ شانو کا سر ہل گیا اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ گڈ اوکے ۔یہ کہہ کر اس نے الماری سے ایک خوبصورت بلوچی ڈیزائن والا ڈریس نکالا اور شانو کے پاس رکھ دیا سامنے کمرے میں جائو اور واش روم میں جا کر یہ سوٹ پہن آئو اور ہاتھ منہ بھی دھو لو ۔شانو خوابیدہ انداز میں سوٹ تھامے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔اس نے کمرے میں نظر آنے والا چھوٹا دروازہ کھولا ۔صاف ستھرا بڑا سا باتھ روم خوشبو سے مہک رہا تھا ۔ڈھیر سارے شمپو کلون اور جانے کیا الابلا تھا ۔شانو نے ٹونٹی کھولی ۔پھر جانے جی میں کیا آئی وہ غسل کرنے لگی رگڑ رگڑ کے نہائی ۔کافی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو احمد کمال اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
وہ شبنمی گلاب کی مانند کھل گئی تھی ۔اس کے سیاہ لمبے بال اس کی کمر پہ جھول رہے تھے ۔خوب صورت لباس نے اسے اور نکھار دیا تھا ۔احمد کمال نے اسے اسٹول پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے قریب آکر پوز میں بیٹھنے کا طریقہ بتایا ۔شانو کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا ۔دھیرے دھیرے احمد کے پوچھنے پہ وہ اپنے بارے میں بتانے لگی ۔اور احمد کمال باتیں کرتا کینوس پہ تصویر بناتا رہا ۔احمد نے درمیان میں کھانے اور چائے کا وقفہ دیا اور پھر شانو کو پوز بنواتا اور تصویر بناتا ۔شام ہو گئی اس نے جیب سے پانچ سو کے نوٹ نکالے اور شانو کے حوالے کئے شانو نے اپنا لباس پہنا اور گھر روانہ ہو گئی ۔آج اس کے قدم زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے اسے احمد کمال بہت بھایا تھا ۔پانچ سو اپنی جگہ آپ بنا رہے تھے ۔جا کے دو سو فیکے کے حوالے کر کے وہ جھگی میں جا لیٹی ۔ایک ہفتہ بیت گیا شانو روز احمد کے گھر جاتی اس کے دیے لباس زیب تن کرتی اور وہ اس کی تصویر بناتا ۔شانو اس دوران مسلسل احمد سے باتیں کرتی رہتی وہ اسے پسند کرنے لگی تھی اسے لگتا کہ احمد بھی اسے پسند کرتا ہے۔
Beautful
وہ کئی بار اسے سراہت ا اور کہتا دیکھنا شانو تمھاری تصویریں تہلکہ مچا دیں گی تم بہت خوب صورت ہو ۔شانو کو پر لگ جاتے وہ خود کو گھر کی مالکن کے روپ میں دیکھنے لگی ۔احمد نے ایک کمرا اس کے لیے مخصوص کر دیا تھا جہاں اس کے لباس جوتے اور تمام چیزیں جو وہ پہن کو تصویریں بنواتی احمد نے اس تحفتا دے دیں۔
کمرے کو لاک کر کے چابی شانو کو دے دیتا کہ اگر وہ کبھی گھر نہ ہو تو وہ اند ر آسکے گھر میں ایک ملازم تھا بابا کرمو وہ چوکیدار بھی تھا اور احمد کا کھانا بھی بناتا ۔شانو کو کئی دن سے لگ رہا تھا کوئی اس کا پیچھا کرتا ہے مگر پھر وہ اپنا وہم سمجھ کر بھول گئی ۔وہ آج بھی حسب ِ معمول احمد کے پاس آئی تو بابا گھر پہ تھے احمد کسی کام سے گیا تھا بابا نے اسے کہا کہ وہ تھوڑی دیر تک آتے ہیں ان کی بیٹی بیمار ہے اس کی خبر لے آیئں وہ جانا یا رکنا چاھے اس کی مرضی ۔شانو نے کہا وہ رکے گی اور احمد کا انتظار کرے گی۔
بابا چلے گئے ۔کچھ دیر کے بعد کچھ لوگ ڈھاٹے باندھے نمودار ہوئے۔ایک نے نقاب ہٹایا تو شانو نے پہچان لیا وہ شکورا تھا ،ان سب نے سب سامان سمیٹا تجوری توڑ کر رقم نکالی اور چیختی چلاتی شانو کو ساتھ لے کر فرار ہو گئے ۔شام کو احمد لوٹا تو خالی گھر ٹوٹی تجوری اس کا منہ چڑا رہی تھی بابا حیران پریشاں سر پکڑے بیٹھا تھا۔
Huts
احمد نے بابا کے بتانے پر جھگیوں کی طرف رخ کیا مگر وہاں کوئی نہ تھا خالی چٹیل میدان ۔مگر آثار بتا رہے تھے کہ وہ لوگ کچھ دیر پہلے یہ جگہ چھوڑ کے نکلے ہیں ۔اس کے ہاتھ میں انگوٹھی کا سرخ مخملی ڈبہ دبا ہوا تھا وہ آج شانو سے اس کے رشتے کی بات کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ اس کی تصاویر کو مقابلے میں ایوارڈ ملا ہے ۔ہونہہ تھی نا کم ذات اس لیے اوقات دکھا دی ۔اس نے جلی راکھ کو ٹھوکر ماری ۔اور بڑبڑاتے ہوئے چل دیا۔