حسب معمول صبح اخبار اٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جب مختلف خبریں نظر سے گزریں تو احساس ہوا کہ آج کا انسان ہوس کا کتنا پجاری بنتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی اپنے ہوس کی وجہ سے اپنی خواہشات کے تابع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں کسی کو دولت کی ہوس ہے تو کسی کو جائیداد بنانے کی۔کسی کو اقتدار میں رہنے کی ہوس ہے تو کسی کو اقتدار سے ہٹانے کی۔کوئی اپنے اندر کے شیطان کی ہوس کی خاطر نساء کو زیادتی کا نشانہ بنا رہا ہے تو کوئی اپنے مردہ ضمیر کے ہوس کی خاطر قبروں سے مردوں کو نکال کر کھا رہا ہے۔
ہوس ہے کیا ؟ہوس وہ ہے جس میں انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے بلکہ وہ عقل کو لوری دے دے کر سلا دیتا ہے اور بس اپنے خواہشات اور دل کی بات ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ ہوس کے لفظی معنی جنون اور دیوانگی کے ہیں۔ جب انسان کی آخری منزل اس کی خواہش بن جاتی ہے اس کے دماغ سے رب ، رسول آخرت اور موت کا خوف نکل جاتا ہے اور اس کو عاقبت سے زیادہ دنیاداری عزیز ہوجاتی ہے تو پھر وہ اللہ اور اس کے احکامات کو بھول کر شیطانی اصولوں کے تابع ہو جاتا ہے۔
کہنے کوتو ہم مسلمان ہیں اور ہمارااللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ساتھ آخرت پر مکمل یقین ہے مگر ہمارے اندراللہ کی نسبت شیطان کی پرستش زیادہ ہے۔ہم اپنے نفس کی خواہش میں اللہ اور اس کے احکامات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہاں جب کہیں ذاتی مفاد اسلام کی تعلیمات کے اندر نظر آئے تو ہم فوراً اسلام کو سامنے لے آتے ہیں۔
پاکستان کی بربادی کا اصل سبب ہی ہوس ہے کیونکہ ہرشخص اپنی دنیاوی زندگی آسائش اور تعیش سے مزین کرنا چاہتا ہے اسی لیے ہوس کے تابع ہورہا ہے۔ آج کل ہر شخص اپنی آخرت کو بھول کر دنیا داری میں گم ہوچکاہے۔ دنیا کوحاصل کرنے کے لیے وہ اچھا ئی برائی کے فرق کو بھول چکا ہے۔ نام نہاد علماء کو دیکھ لیں ذاتی مفاد کی خاطر ایسی ایسی تاویلیں نکالتے ہیں کہ عام آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے بھی کہ نہیں ؟ اسی طرح ملک و ملت کے خیر خواہ سیاستدانوں کو دیکھ لیں۔یہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ہر حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کچھ اور وعدے کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد وعدے وعیدوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ذاتی کرسی کو قائم رکھنے کے لیے آیت الکرسی کو بھول جاتے ہیں۔ اسلامی احکامات کے منافی کام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور ان کے مد مقابل اپوزیشن والے اہل اقتدار کو اقتدار سے ہٹا نے کے لیے رشوت سے لیکر بلیک میلنگ تک کاکام کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
وہ بھی ہوس ہی تھی جس نے عظیم پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سچ یہی ہے کہ ہمارے صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدارنے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر محبور کر دیا تھااور اب اس زیادتی کی معافی مانگنے پر بھی تیار نہیں۔ہوسِ اقتدار نے کبھی کسی حکمران کو درست فیصلہ کرنے ہی نہیں دیا۔اگر سیاستدانوں کی ہوس پر کالم لکھنا شروع کیا جائے تو قلم کی سیاہی ختم ہوسکتی ہے مگر ان کے کارنامے نہیں۔
سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی اپنے ہوس کی خاطر سب کچھ بھول کر اپنے نفس کے ماتحت ہوگئی ہے۔ آئے روز ہم اخبار میں پڑھتے ہیں کہ درندے صفت انسان اپنے ہوس کی خاطر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو یکسر بھول کر اپنے اندر کے شیطان کی بات کو مان رہے ہیں۔ وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخر ان کو بھی ایک دن مرنا ہے اور اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ کیا انہوں نے کسی عورت کے بطن سے جنم نہیں لیا ؟ کیا ان کی اپنی کوئی بہن بیٹی نہیں؟ اگرا یسا فعل ان کی کسی خاتون کے ساتھ ہوتو کیا وہ برداشت کرپائیں گے۔
Brother Eat Dead
آج کل میڈیا پر ایک نیوز کا بہت زور و شور ہے کہ بھکر میں دو سگے بھائی مردوں کا گوشت کھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک خاندان کے متعلق یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ وہ قبرستان سے تازہ مردوں کو نکال کر ان کا گوشت پکا کر کھاتے ہیں۔ جب حکومت نے پہلی مرتبہ ایسی حرکت کرنے والوں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو دوسرے لوگوں میں بھی ایسی درندگی کا کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا۔اب تک اطلاعات کے مطابق ان دو بھائیوں نے 150 کے قریب مردے کھانے کا اعتراف کیا ہے۔ کیا یہ کسی انسان کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے انسان بھائی کا گوشت کھائے یا ہمارے مذہب میں ایسا کرنا حرام نہیں؟کیا اسلامی یا ملکی قانون میں ان کے لیے کوئی سزا نہیں ؟کیا ہم صرف آخرت میں ہی ان کے لیے کسی سزا کے منتظر رہیں گے۔
بات ہے انسان کے ضمیر کی جس کو پہلے ہوس کے نشے کی گولیاں دے دے کر سلایا گیا اور اب وہ نشے کی زیادتی کی وجہ سے مرچکا ہے ۔ ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جب کسی شہر میں ناحق قتل ہوجائے تو اس شہر میں سرخ آندھی آیا کرتی تھی مگر اب تو اللہ معاف کرے قتل جیسے واقعات تو آئے روز ہورہے ہیںمگر اب تو زناء سے لیکر انسانی گوشت تک کھایا جارہا ہے مگران واقعات کے باوجود نہ آندھی آتی ہے اور نہ کسی ذمہ دار کو موت۔ اسلام کے نام پر کچھ لوگ جعلی پیر بن کر لوگوں کو خوب بیوقوف بنا رہے ہیں۔ طرح طرح کے ڈرامے رچا کر خوب دولت اکٹھی کررہے ہیں۔ جن بھوت نکالنے کے نام پر لوگوں کے ہاتھ پیر بھی توڑے جارہے ہیں۔ یہ جعلی پیر اتنے کام پر اکتفا نہیں کررہے بلکہ اپنے اندر چھپے شیطانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جنسی فعل سے بھی باز نہیں آتے ۔ ایسے جعلی پیروں نے لوگوں کا اصلی پیروں سے بھی اعتماد ختم کروادیا ہے۔ ایسے لوگوں نے اسلام کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ غیر مسلم مسلمانوں کا مذاق بنا رہے ہیں۔ یہ جعلی پیر دولت کے ہوس کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
جب تک ہم اپنے اندر کے ہوس کو ختم نہیں کریں گے اس وقت تک یہ سیاستدان ، مردہ گوشت کھانے والے اور یہ جعلی پیر اسی طرح ہم لوگوں کو بیوقوف بنا کر لوٹتے رہیں گے۔ کیونکہ ہم اپنے ہوس کی خاطر ایسے جعلی پیرو ں پر اور سیاستدانوں پر اعتبار کرتے ہیں جوہمارے اعتبارکو ٹھیس پہنچا کر اپنا مفاد پورا کرتے رہیں گے۔