تحریر: ایم آر ملک بھگت سنگھ انگریز سامراج کے خلاف برصغیر میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کا استعارہ ہے بھگت سنگھ کا تعلق لائل پور موجودہ فیصل آباد کی سرزمین جڑانوالہ سے تھا فرنگی سامراج کے خلاف جب آزادی کی جنگ لڑی جاری تھی تو بھگت سنگھ اُس جنگ میں ہراول کا کردار ادا کر رہا تھا بھگت سنگھ کے اس کردار کو جو وہ اپنی ماں دھرتی پر قابض ناجائز طور پر مسلط حکمرانوں کے خلاف نبھا رہا تھا فرنگی نے بغاوت کا نام دیا اور لائل پور کے اس باغی کی گرفتاری کے بعد اُس کیلئے موت کی سزا تجویز ہوئی بالآخر ایک روز آزادی کے اس ہیرو کو سزائے موت دے دی گئی لاش کو تختہ دار سے اُتارا گیا تو گاندھی آزادی کے اس ہیرو کو خراج تحسین پیش کر نے کیلئے پھانسی گھاٹ پہنچے اور بھگت سنگھ کی لاش پر کھڑے ہو کر یہ تاریخی الفاظ دہرائے ”بھگت سنگھ کی لاش تاج برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان تا ابد نفرت کی لکیر بنی رہے گی ”۔
جس روز رانا ثناء اللہ کے شہر میں حق نواز کی لاش کو گرایا گیا اُس روز مجھے حق نواز کاکردار لائل پور کے ہیرو بھگت سنگھ سے بھی بڑا نظر آیا بھگت سنگھ تو اُس دشمن کے ساتھ صف آرا ء ہوا جس کا چہرہ واضح تھا لیکن حق نواز شہید فرنگی سامراج کے لے پالک اُس طبقہ سے آزادی کیلئے لڑا جس کے قاتل چہرے پر شرافت کا لبادہ چڑھا ہوا تھا ریاستی پولیس کے سپاہی اور پالتو گلو بٹ چیلوں اور مردار خور گدھوں کی طرح پاکستان کے مانچسٹر میں پھیلے ہوئے تھے قرائن و آثار سے یہ واضح ہے کہ فیصل آباد کا رانا ماڈل ٹائون کی طرح یہاںبھی لاشیں گرانے کا تہیہ کر چکا تھا فیصل آباد میں احتجاج کرنے والی کثیر تعداد اُن ورکروں کی تھی جن کوبد ترین لوڈ شیڈنگ سے روز گار ختم ہونے کے خطرے نے گھیر رکھا ہے یہی طبقہ اب خوف سے نکل کر غصے کی کیفیت میں داخل ہورہا ہے مقدس پارلیمنٹ کو ہم ”جمہوریت کی عوامی قتل گاہ کہہ سکتے ہیں جہاں عوامی نمائندے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے مفادات اور اقدامات کا دفاع کرتے ہیں ،حکومتی وزراء جھوٹ بولنے والی مشینوں کی طرح ٹی وی چینلز پر بر اجمان نظر آتے ہیں۔
فیصل آباد میں گرنے والی ناحق لاش پر ملک بھر میں پھیلا احتجاج ،مظاہرے ایک بڑی عوامی تحریک کا پیش خیمہ ہیں ایک ایسی تحریک جس کو طبقاتی کشمکش کی آخری نہج پر جاتا ہوا محب وطن حلقے دیکھ رہے ہیں اس لڑائی میں ہمیںمحکوم طبقہ کا پلڑ ابھاری پڑتا دکھائی دے رہا ہے محض اس لئے کہ وہ جس نظام کیلئے لڑ رہا ہے وہ آنے والے کل کا نظام ہے پارلیمنٹ میں جس فریضے کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی نے نبھانے کا بیڑا اُتھایا ہے اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانا اب ”سٹیٹس کو ”کی کسی سیاسی جماعت کیلئے ممکن نہیںرہا یہ ایک ایسے نظام کو بچانے کی تگ و دو ہے جو اپنی موت کے ہاتھوں دم توڑ رہا ہے ایک ایسی بیمار معیشت کو چلانے کی ناکام خواہش جو آخری سانسیں لے رہی ہے عوام پر اپنی باریاں مسلط کرنے والے ایک ایسے نظام کو طاقتور کرنے کی ناکام سعی میں مبتلا ہیں جس کا شیرازہ بکھرنے کو ہے ،جس کا ڈھانچہ اتنا مفلوج ہو چکا کہ اپنا تمام تر بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر ڈالتا جارہا ہے بھٹو کی پارٹی کی شکستگی اور تھکاوٹ کا اندازہ اُن بھگوڑے سیاست دانوں سے لگایا جاسکتا ہے جو حادثاتی طور پر مسلط ہونے والی قیادت سے متنفر ہو چکے ہیں ایسی کمزور بیساکھیوں پر کھڑی عوام کی پارٹی کو نظریاتی ورکروں کی جانب سے تحفظ دینا مشکل ہو جاتا ہے عمران کے خلاف برسر اقتدار تمام ”مسخرے ”سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔
PPP Flage
اب باہر نکلنے والے طبقے کا شعور پست کرنے کی کاوشیں عبث ہیں ،فیصل آباد جیسے بد معاشانہ ہتھکنڈوں کا سہارا لینے کے باوجود وہ پسپائی اختیار کرنے پر تیار نہیں اُس کے جذبات کے سامنے جھوٹے دانشوروں کی کھوکھلی باتوں پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ایسے میں جمہوری ایوان پر حاوی تما م غلیظ نظریات پس پشت جا چکے جلتی پر تیل پھینکنے کا محاورہ رائے ونڈ محلات کے اُن دربانوں پر صادر آتا ہے جنہوں نے دھرنے والوں پر طنز کے نشتر چلائے مذاکرات کی راہ میں یہی تنخواہ دار مشیر ،وزیر مزاحمت بنے دھرنے میں شامل ہم اُس طبقہ کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے جن کا احساس محرومی رفتہ رفتہ انتقام کی آگ میں بدل رہا ہے اس طبقہ کیلئے ایک جمہوری حکومت میں بھی آٹا ایک نایاب شے ہے ،علاج ایک عیاشی بن چکا ہے۔
تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا خریدنا ایک فضول خرچی ٹھہرا بلاول زرداری اختلافات کے ایک نئے شوشے کا زہر اب ہمارے کانوں میں اُنڈیلا جارہا ہے مگر اب بیچ منجدھارہچکولے کھاتی پارٹی کی نائوکو ڈوبنے سے بچانا ناممکن ہے پیپلز پارٹی کا تھنک ٹینک ایسی جھوٹی افواہوں سے اب پا رٹی بقا کو دوام نہیں دے پائے گا جس کی قیادت نے سرمایہ دار کے جبر کو تیز کرنے کی ٹھانی اور اب تک ”جمہوریت ”بچانے کے نام پر اِسے بخوبی سر انجام دے رہی ہے اکیسویں صدی میں کھڑا پاکستانی اپنے مستقبل کے بارے میں عہد رفتہ کے ایک پسماندہ انسان سے بھی زیادہ خوف زدہ ہے اور یہ خوف زدگی اعتراف ہے اُس نظام کی بدمعاشی کا جو انسانیت کے مسائل کو حل کرتے ہوئے۔
اُسے آگے لے جانے کے قابل نہیں رہا ان شریفوں اور زرداریوں کی اس سے بڑی اور اخلاقی گراوٹ کیا ہوگی کہ تھر معصوم جانوں کو نگل رہا ہے اور رائے ونڈ کے دستر خوان پر ستر کھانے محض اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے اور انسانیت کامذاق اُرانے کیلئے اُڑائے جاتے ہیں۔ فیصل آبادمیں شہید ہونے والا حق نواز بھی عصر حاضر میں جنگ آزادی کا ستعارہ ہے عہد ِشیریفیہ کے لے پالک غنڈوں کے ہاتھوں گرنے والی حق نواز کی لاش بھی موجودہ نظام اور عوام کے درمیان تاابد نفرت کی لکیر بنی رہے گی۔