تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید لیاری گینگ وار کے شہنشاہ عزیر بلوچ سے متعلق خبریںکچھ اس اس طرح سامنے آئی ہیں جو نہات ہی سنسی خیز ہیں۔کہ کالعدم لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سرغنہ عزیر جان بلوچ کو 29 دسمبر 2014 کو دوبئی میں گرفتار کیا گیا۔جو 20 اپریل 2015 کو پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ جس کو 6ماہ تک پیشاور کے تفتیشی مرکز میں رکھا گیا۔کہا جاتا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد اور تفتیش کی گئی تو کراچی رینجرز آپریشن میں ایک دم تیزی آگئی۔جس سے پیپلز پارٹی حکومت اور اس کے متعلقہ سیاست دانوں میں اور رہنمائوں کے چھکے چھوٹ گئے ہیں۔اہم خبر یہ تھی کہ 30 جنوری 2016کو علی الصبح عزیر بلوچ کو بلوچستان سے کراچی میں داخل ہوتے ہوے رینجرز حکام نے ملیر کے علاقے سے گرفتار کر لیا۔اس کو 29 دسمبر 2014کو مسقط سے بائی روڈ دوبئی میں داخل ہوتے ہوے دوبئی کی سیکورٹی ایجنسیوں نے گرفتار کر لیا تھا۔ذروئع کا یہ کہنا ہے کہ 20،اپریل 2015کو اسے انٹر پول کے ذریعے حراست میں لیا گیا اور پاکستان کے سیکورٹی حکام اسے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد لے آئے۔اور اس کو حساس اداروں کے سُپرد کر دیا گیا۔یہاں سے اسے پیشاور منتقل کر دیا گیا۔چھ ماہ تک اس سے معلومات اکٹھی کی جاتی رہیں۔
عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد جب کراچی آپریشن میں تیزی آئی تو بہت سے مجرمان کی گرفتاریوں کی جب اطلاعات عام ہونا شروع ہوئیں تو سندھ حکومت نے مبینہ طور پر مجرموں کے کریک ڈائون کی اطلاع پر سندھ سے کئی بڑے ملزمان کو نکال باہر کیا۔دوسری جانب عزیر بلوچ کی زندگی بھی خطروں کے بھنور میں آتی دکھائی دی تو ادااروں کی طرف سے اُس کی زندگی کی حفاطت کی ذمہ داری لے لی گئی۔ گذشتہ سال ایک خبر افواہ کی شکل میں پھیلائی گئی اور اس مقصد کے لئے میڈیا بہت ہی مناسب ذریعہ ثابت ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ عزیر بلوچ کو دوبئی میں رہا کر دیا گیا ہے۔جو ہمارے میڈیا پر کئی دنوں تک موضوع ِبحث بنا رہا۔دوسری جانب عزیر بلوچ کی پاکستان حوالگی اور دبئی کی تفتیش کے دوران اہم نوعیت کے انکشافات اداروں کے سامنے آنے کی اطلاع پاکستان میں داخل ہوئیں توایک خاص سیاسی گروہ میں کھبلی مچ گئی اور ہر جانب ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
دوسریجانب عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لئے سندھ حکومت نے بھی 5 فروری 2015کو پولیس افسران کی ایک ٹیم دوبئی روانہ کر دی تھی جس کے بعد رینجرزکی جانب سے بھی ایک تفتیشی مہم روانہ کی گئی مگر اان ٹیموں کو دبئی جانے کا سرکاری ویزا نہیں دیا گیا تو یہ لوگ پرائیویٹ کیپیسٹی میں وزٹ ویزے پردوبئی پہنچے اس کے بعد کسی بھی قسم کی کاروائی کی سُن گُن نہ لگی۔ہفتہ 30جنوری 2016 کو اچانک میڈیا پر خبر چلی کہ لیاری گینگ وار کا کنگ عزیر بلوچ گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس سلسلے میں رینجرز ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزم کو کراچی میں داخل ہوتے ہوے الالصبح پکڑالیا گیا ہے۔
Uzair Baloch Arrest
عزیر بلوچ کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر تھی۔اس کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں 53 ، ایف آئی آردرج ہیں جن میں سے 42 مقدمات میں وہ اشتہاری ہے۔کہا جارہا ہے کہ عزیر بلوچ نے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔ملزم کو سخت سیکورٹی میں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر اور منہ پر رومال لپیٹ کر کراچی کی عدالت میںپیش کیاگیا تھا۔جہا ں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔مزیدتحقیقات کی غرض سے عدالت نے رینجرز کو عزیر بلوچ کو 90دنوں کے ریمانڈ دے دیا ہے۔ اب سندھ کے وزیر اعلیٰ کی بھی زبا ن کھلی اور انہوں نے کہا کہ عزیر بلوچ سے ٹھیک ٹھیک تحقیقات کی اجائے۔انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اداروں کی تحویل مین تو پہلے سے ہی تھا۔گرفتاری تو بعد میں ظاہر کی گئی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈی جی رینجرز نے عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لئے انہیں اعتماد میں لیا تھا۔وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوے مزید گویا ہوے کہ چاہے میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو جرائم پیشہ افراد کو نہ تحفظ کبھی دیا ہے اور نہ کبھی دیں گے۔ ایک خیا ل یہ بھی عمومیت کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے کہ عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کی ہائی کمان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں سرا سیمگی پائی جاتی ہے۔
اور کئی سیاست دان پا کستان سے فرار کے راستے تلاش کررہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے کئی رہنما یہ کہتے ہوے بھی سُنے گئے ہیں کہ عزیر بلوچ کو استعمال کرنے والے خودہ اضطراب کا شکار ہونگے۔پیپلز پارٹی کو اس کی گرفتاری سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔اس بات کو بھی اہمیت حاصل ہے کہ ذوالفقار مرزا کو قانون کے کٹہیرے میں لائے بغیر عزیر بلوچ کے جرائم کا ریکارڈ نا مکمل رہے گا۔کیونکہ جس وقت یہ سندھ کے وزیر داخلہ تھے تو عزیر بلوچ کھل کر کرپشن کے میدان کا باشاہ بن کر کھیل کھیل رہا تھا۔جس کو ذوالفقار مرزا کی مکمل آشیر واد حاصل تھی۔اس حوالے سے ذوالفقار مرزا کا بھی کہنا ہے کہ وہ عزیر بلوچ کو اون کرتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ عزیر بلوچ میرا بھائی ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کا پرسیپشن یہ ہے کہ و ہ پیپلز پارٹی کا ایک کارکن ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ذوالفقار مرزا کے دورِ وزارتِ داخلہ میں عزیر بلوچ کا کھیل بڑی تیزی کے ساتھ جاری تھا اور امن کمیٹی کا وجود بھی انہی کی وزارتِ خارجہ کے دور عمل میں لایا گیا تھا۔
اخبارات کی اطلاعات کے مطابق عزیر بلوچ نے تفتیش کے دوران پولیس اور حکومتِ سندھ کے کئی پردہ نشینوں کے نام بھی اگل دیئے ہیں۔پیپلز پارٹی امن کمیٹی اور پیپلز گینگ وار کے سربراہ عزیر بلوچ نے یہ بھی انکشاف کر دیا ہے کہ لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں چلنے والے جوے اور سٹے کے اڈے سے لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ ان جوے کے اڈوں کو پولیس کے اعلیٰ افسران کی مکمل سر پرستی حاصل تھی ان اڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اور رقوم کا ایک حصہ بڑے بڑے سیاست دانوں کو بھیجاتا تھا۔پولیس کے بعض افسران و اہلکار باقاعدہ لیاری گینگ وار کے کیلئے کام کرتے رہے ہیں جس کے لئے اُنہیں منہ مانگی رقوم بھی دیجاتی تھیں۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir23hurshid@gmail.com