تحریر: نعیم الرحمان شائق یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے۔
میں اپنی تحریروں میں لیاری کے بارے میں لکھتا رہتا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ لیاری کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیاری کے لوگوں میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یہاں کے لوگوں میں کھیل سے لے کر تعلیم تک کے ہر شعبے میں قابلیتیں اور صلاحیتیں بدرجہ ِ اتم موجود ہیں ۔ مگر ان کو ابھارنے والا اور ان صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور ان کے قدر دان بہت کم ملتے ہیں ۔ عام طور پر اب بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ لیاری کے لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں ۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے ۔ لیاری میں بے نظیر بھٹوشہید یو نی ورسٹی کے قیام نے تعلیم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔کئی کالج اس یو نی ورسٹی سے ملحق ہیں ۔ بے نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی کے قیام کی وجہ سے لیار ی کے نو جوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اب انھیں اعلیٰ تعلیم لیاری میں ہی مل جاتی ہے ۔اس کے باوجو د بھی لیاری کے لوگوں کو جاہل اور ان پڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
Lyari
جو لوگ لیاری کو پسند نہیں کرتے ، انھیں چاہیے کہ وہ ایک بار یہاں ضرو ر آئیں ۔ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ یہ علاقہ اور یہاں کے مکین کیسے لوگ ہیں ۔ یہ علاقہ کھیلوں کے حوالے سے بھی کافی ذرخیز رہا ہے ۔ یہ علاقہ اب بھی ماضی کے عظیم فٹ بالروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ قومی سطح کے بہت سے مشہور فٹ بالر لیاری میں رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ باکسنگ کا کھیل بھی یہاں عام ہے ۔ معروف باکسر حسین شاہ کا تعلق لیاری سے ہے ۔ تعلیمی میدان میں پروفیسر علی محمد شاہین کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کا تعلق بھی لیا ری سے تھا ۔ اردو کے مشہور شاعر ن۔م۔دانش ، جو ان دنوں امریکا میں ہیں ، کا تعلق بھی لیاری سے ہے ۔ پروفیسر صبا دشتیاری بھی لیاری کے تھے ۔ ان کے علاوہ اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں ، جو لیاری کی شان ہیں ۔ جب بھی لیاری کی تاریخ لکھی جائے گی ، ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
تقریبا ایک مہینا قبل لاہور کی فاسٹ یونی ورسٹی میں گرافکس ڈزائننگ کا ایک مقابلہ منعقد ہوا تھا ۔ اس مقابلے میں پورے پاکستان سے طلباء نے شرکت کی تھی ۔ یعنی یہ ایک قومی مقابلہ تھا ۔ اتنے سخت مقابلے میں بے نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی کے دو طلبہ عبدا لواحد بلوچ اور مبشر بازی لے گئے ۔ ان دونوں طلبہ کا تعلق لیا ری سے ہے ۔ انھوں نے لیاری میں ہی تعلیم حاصل کی۔
Education
اب بھی وہ لیاری میں ہی اعلیٰ تعلم حاصل کر رہے ہیں ۔ یہ مقابلہ جیت کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ لیاری والے بھی کسی سے کم نہیں۔ لیاری والوں میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے ۔ مگر کوئی ان قابلیتوں اور صلاحیتوں کو ابھارنے والا تو ہو۔ عبدالواحد بلوچ نے مجھے بتا یا کہ کہ 2014ء میں محمد علی جناح یو نی ورسٹی میں ویب ڈویلپیمنٹ کا مقابلہ منعقد ہوا تھا ۔ اس مقابلے میں بھی انھوں نے اور ان کے دوست فرحان نے فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام ِ بالا لیاری پر توجہ دیں ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے پورا پاکستان مستفید ہو سکے ۔