پھر مجھے خاک میں ہی چاہے ملایا جائے مجھکو اک بار مرے سامنے لایا جائے روز رونے سے بصارت بھی تو جا سکتی ہے روز مت اہل ستم مجھکو رلایا جائے شوق منزل نے ہی رستے کو سہارا ہوا ہے یہ سہارا تو نہ رستے سے ہٹایا جائے نرم بستر میں بھی اْگ آئے ہیں کانٹے یارو ماں کی آغوش میں پھر مجھکو ْسلایا جائے اپنے دشمن سے تو میں خود بھی نمٹ سکتا ہوں مجھے احباب سے فی الحال بچایا جائے پابہ زنجیر مجھے کرنے سے پہلے زاہد اِک حِصار اور مرے گرد بنایا جائے