آنکھوں کی دہلیز پہ ٹھہرا دریا دینے والی تھی داسی تھی اور دان میں اپنا صدقہ دینے والی تھی تم نے بڑھ کر روک لیا ہے میرا رستہ ورنہ میں تم پہ وار کے سچ مچ ساری دنیا دینے والی تھی اس بھائی نے چھین کے بیچے میرے چند نوالے بھی جس کو میں کھلیان سے اپنا حصہ دینے والی تھی اچھا ہے وہ لوٹ گیا ہے بن دیکھے دروازے سے سچ تو یہ ہے میں خود اس کو رستہ دینے وا لی تھی تم نے تو خود اس کا دامن اشکوں سے لبریز کیا جو معصوم سی لڑکی تم کو پُرسہ دینے والی تھی شکر کہ میں نے ایک صدا پر پیچھے مڑ کر دیکھ لیا ایک سہیلی پشت سے ورنہ دھکا دینے والی تھی وہ دنیا کے منہ پر دیکھو واپس آکر تھوک گیا دنیا جس کے نام کا مجھ کو طعنہ دینے والی تھی آج کسی کی خاطر ہنس کر کیوں دروازہ کھول دیا تم تو ایماں دل نگری پر پہرہ دینے والی تھی